Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaashiya : 8
وُجُوْهٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌۙ
وُجُوْهٌ : کتنے منہ يَّوْمَئِذٍ : اس دن نَّاعِمَةٌ : تر وتازہ
اور بہت سے منہ (والے) اس روز شادماں ہوگے
8۔ 16۔ اہل دوزخ کے ذکر کے بعد ان آیتوں میں اہل جنت کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنی ایک ایک نیکی کا دس گنے سے سات سو تک اور بعضی نیکیوں کا اس سے بھی زیادہ اجر پائیں گے تو اپنے عملوں کے نتیجہ سے خوش ہوجائیں گے اوپر گزر چکا ہے کہ جنت کے درجے ہیں جیسا جس کا عمل ہوگا ویسا ہی اس کو درجہ ملے گا لیکن دوزخ کے مقابلہ میں جنت کا ہر درجہ بلند اور عالی ہے۔ اس لئے فی جنۃ عالیہ فرمایا۔ سورة بقر میں آیت اذتبرا الذین اتبعوا من الذین اتبعوا گزر چکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل دوزخ آپس میں لغو باتیں اور ایک دوسرے کو لعن طعن کریں گے اس واسطے فرمایا اہل جنت نہ کوئی لغو بات کہیں گے اور نہ کسی لغو بات کسی دوسرے سے سنیں گے پھر فرمایا وہاں طرح طرح کی نہریں جاری ہوں گی ان نہروں کے کناروں پر آبخورے رکھے ہوں گے ‘ نرم نرم تخت بچھے ہوں گے ان تختوں پر جا بجا طرح طرح کے بچھونے اور تکیے ہوں گے جہاں جو کوئی چاہے ‘ بیٹھے لیٹے ‘ ترجمہ میں یہ جو ہے کہ مخمل کے نہا کچھے کھنڈر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مخمل کے نہالچے جا بجا بچھے ہوئے ہوں گے غرض اوپر گزرچکا ہے کہ جنت کی نعمتیں وہ ہیں کہ نہ کسی بادشاہ و امیر نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کسی کے دل میں ان کا تصور گزر سکتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل کرم سے جب وہ نعمتیں نصیب کرے گا اسی وقت ان نعمتوں کی تفصیل معلوم ہوگی اب دنیا کی کسی زبان یا قلم میں وہ طاقت کہاں کہ ان نعمتوں کی تفصیل بیان کرسکے۔
Top