Tafseer-e-Haqqani - Al-Ghaashiya : 8
وُجُوْهٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌۙ
وُجُوْهٌ : کتنے منہ يَّوْمَئِذٍ : اس دن نَّاعِمَةٌ : تر وتازہ
اس دن بہت سے منہ تو ترو تازہ
ترکیب ¦ وجوہ مبتداء ناعمۃ خبرہ یومئذ ظرف للخبر لسعیھا واللام تتعلق براضیۃ وھی خبر بعد خبر۔ وکذافی جنۃ عالیۃ لا تسمع قرء الجہور بفتح الفوقیۃ ونصب لاغیۃ وقریٔ بصیغۃ المجھول ورفع لاغیۃ ولاغیۃ اما صفۃ موصوف محذوف ای کلمۃ لاغیۃ او مصدر ای لاتسمع انت یا ایھا المخاطب فی الجنۃ لغواً ای اذا وباطلا ھذہ الجملۃ وکذاما بعد ھا صفۃ جنۃ واکواب جمع کو ب وانہ قدح الذی لاعروۃ ولا خرطوم نما رق جمع نمرقۃ بضم النون وبکسرھا عند الفراء وھی وسادۃ صغیرۃ (تکیہ) زرابی جمع زربی وزربیۃ فی القاموس الزرابی النمارق والبسط و کل مایبسط وتیکاء علیھا الواحد زربی بالکسر وبالضم۔ تفسیر ¦ اب دوسرے فریق کا حال بیان فرماتا ہے یعنی نیک لوگوں کا فقال وجوہ یومئذ ناعمۃ کہ بہت سے منہ اس روز شادماں اور خوش اور ترو تازہ ہوں گے۔ ان پر وہاں کی ہول اور سختی کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں روزہ کی بھوک پیاس اور راہ حق میں کوشش اور جہاد کے واسطے تکالیف شاقہ اٹھا کر اور نیز راتوں کو عبادت کرکے پژ مردہ ہوگئے تھے اور اللہ کی راہ میں فقرو فاقہ نے ان کے چہروں کو بےرونق کردیا تھا۔ اس لیے فرماتا ہے لسعیہا راضیۃ اپنی دنیاوی کوششوں سے جو انہوں نے اللہ کی راہ میں کی تھیں خوش و خرم ہوں گے کہ ہماری کوششوں کا نیک ثمرہ نمودار ہوا اور کفار بد مذہبوں کے کہنے کے موافق رائیگاں نہ گئیں اور وہ نیک ثمرہ یہ ہے فی جنۃ عالیہ کہ بلند باغوں میں ہوں گے جہاں حوادث دہر کے ہاتھ کو رسائی نہ ہوگی اور نیز بلندی پر جو باغ ہوتا ہے تو نہایت خوش فضا ہوتا ہے یا یہ معنی کہ بلند مرتبہ باغوں میں ہوں گے یعنی وہ دنیا کے باغوں جیسے باغ نہیں جن پر خزاں کو دسترس ہو بلکہ ایسے کہ جن کے آگے دنیا کے شاہانہ باغ ہیچ ہیں۔ جہاں تک عقل و وہم انسانی نعمتیں تجویز کرے ان سے بڑھ کر ان میں ہیں۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ لاتسمع فیہا لاغیۃ کہ اے مخاطب ! تو اس میں کوئی لغو اور رنج دہ بات نہ سنے گا نہ کوئی کسی کو برا بھلا کہے گا، نہ کوئی خوف و اندیشہ کی بات کہے گا نہ کسی کے مرنے کی خبر ہوگی کہ عیش مکدر ہوجاوے نہ اپنی جوانی اور اس باغ و بہار کے فنا کی بات سننے میں آئے گی۔ الغرض کوئی رنج دہ بات کان میں نہ پڑے گی بلکہ ہر طرف سے فرحت بخش باتیں سننے میں آئیں گی اور دوسری بات یہ ہے کہ فیھا عین جایۃ کہ ان باغوں میں چشمے جاری ہوں گے۔ ان کے پانیوں کی خوش آئند روانگی اور ان سے باغوں کی ترو تازگی دوبالا لطف کر دے گی۔ دوزخیوں کو تو گرم چشمہ کا پانی پینے کو ملتا تھا۔ یہاں نہر تسنیم بےحساب ہے۔ یہ ان کے اعمال جاریہ اور خدا کے خوف و محبت سے روتی آنکھوں کا مظہر ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ فیہا سررمرفوعۃ ان باغوں میں بلند مرتبہ یا بلند تخت شاہانہ ہوں گے جن پر بیٹھ کر نظارہ کریں گے اور اس سلطنت کے بادشاہ ہوں گے۔ ہر جنتی اس جہان میں ملک باقی کا بادشاہ ہوگا۔ چوتھی بات یہ کہ اکواب موضوعۃ وہاں کو زے اور پیالے نعمتوں سے بھرے ہوئے اور نہایت خوش رنگ اور بیش بہا قرینہ سے چنے ہوں گے تاکہ جس چیز کی طرف رغبت ہو آسانی سے لے جاوے۔ پانچویں یہ کہ نمارق مصفوفۃ کہ برابر برابر حریری اور پر زر اور نہایت پر تکلف تکیے اور جواہر ٹکی ہوئی مسندیں بچھی ہوں گی کہ جن کے رنگوں اور تکلف کو دنیا کی آنکھ نے دیکھا بھی نہیں۔ یہ تکیے اور مسندیں تو تختوں پر ہوں گی اور مکانوں میں یہ یہ ہوگا۔ وزرابی مبثوثۃ کہ نہایت بےبہا قالین بچھے ہوں گے۔ ہر کمرہ میں ایک نئی تیاری ہے۔ اور مکانات کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں کیونکہ وہ جواہرات کے ہوں گے اور وہ جواہرات دنیا کے جواہرات سے بدرجہا فائق ہوں گے اور جب مکانوں اور وہاں کے سامانوں کی یہ کیفیت ہے تو ان مکانوں میں ان کے دل بہلانے اور آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے وہ وہ حسین عورتیں ہوں گی کہ جن کے حسن اور خوبی اور ان کی نوخیز جوانی اور ان کے نازو ادا اور ان کے لباس اور زیورات کی تصویر و ہم و ادراک سے بھی نہیں کھینچ سکتی۔ یہ سب چیزیں روحانی ملکات کے مظاہر ہیں۔ کور باطن ان باتوں کو اک تشبیہ اور دل لبھانے والا استعارہ سمجھتا ہے اور اس کی کوتاہ عقل درحقیقت ایسی چیزوں کے وجود کو اس قادر مطلق کی قدرت کے احاطہ سے باہر جانتی ہے۔ یہ سب باتیں برحق ہیں۔ عالم ناسوتی کا حجاب ان کے دیکھنے میں حائل ہے۔ جب یہ پردہ ظلمانی موت نے اٹھا دیا تب یہ سب چیزیں نظر آنے لگیں گی اور جو اہل صفاء ہیں اور ان کی روح میں کمال نورانیت پیدا ہوگئی ہے تو ان کو اس عالم میں بھی یہ چیزیں دکھائی دے جاتی ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کی آنکھوں میں نہ یہاں کے حسینوں کی قدر و منزلت باقی رہتی ہے نہ وہ دنیا کے عیش و نشاط کو خاطر میں لاتے ہیں اور اسی لیے وہ ہر دم اس عالم کے مشتاق رہا کرتے ہیں اور دنیا کی زندگی کو قید خانہ کی زندگی سے بدتر سمجھتے ہیں ہاں خسیس طبیعتیں بچوں کی طرح اس کھیل اور تماشا پر ایسے گرویدہ ہوتے ہیں کہ پھر اور نیک و بد کی تمیز ہی نہیں رہتی۔ کیا خوب فرمایا ہے عارف جامی نے ؎ دلا تاکہ دریں کا خِ مجازی کنی مانند طفلاں خاکبازی بیفشاں بال و پر زامیزش خاک بپر تا کنگر ایوان افلاف قرآن مجید دنیا کے غافلوں کو اس ملک جاودانی کی ہدایت کرتا ہے۔ نفس اور قوائے بہیمیہ ہیں کہ اس کو اٹھنے نہیں دیتے عجب کشمکش میں پڑا ہوا ہے مگر جس کو جاذبہ الٰہی چاہتا ہے ادھر کھینچ لے جاتا ہے۔
Top