Al-Quran-al-Kareem - Ar-Rahmaan : 85
فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّمَّا یَعْبُدُ هٰۤؤُلَآءِ١ؕ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُ١ؕ وَ اِنَّا لَمُوَفُّوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ۠   ۧ
فَلَا تَكُ : پس تو نہ رہ فِيْ مِرْيَةٍ : شک و شبہ میں مِّمَّا : اس سے جو يَعْبُدُ : پوجتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ مَا يَعْبُدُوْنَ : وہ نہیں پوجتے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَعْبُدُ : پوجتے تھے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ دادا مِّنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَمُوَفُّوْهُمْ : انہیں پورا پھیر دیں گے نَصِيْبَهُمْ : ان کا حصہ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ : گھٹائے بغیر
پس تو اس کے بارے میں جس کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں، کسی شک میں نہ رہ، یہ لوگ عبادت نہیں کرتے مگر جیسے ان سے پہلے ان کے باپ دادا عبادت کرتے تھے اور بیشک ہم یقینا انھیں ان کا حصہ پورا پورا دینے والے ہیں، جس میں کوئی کمی نہ کی گئی ہوگی۔
فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّمَّا يَعْبُدُ هٰٓؤُلَاۗءِ : یعنی ان کے معبودوں کے باطل ہونے یا نفع نقصان کا مالک نہ ہونے میں کسی قسم کا شک نہ کر۔ ”مِّمَّا يَعْبُدُ هٰٓؤُلَاۗءِ“ (جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں) میں ”یہ لوگ“ سے مراد مشرکین قریش ہیں۔ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ میں نے قرآن کی اس اصطلاح کی جستجو کی تو تقریباً گیارہ مقامات میں ایسا ہی پایا۔ یہ بات میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالی گئی ہے اور میں نے آیت : (وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا) [ النساء : 41 ] کی تفسیر میں اس کی وضاحت کی ہے۔ [ التحریر والتنویر ] یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ کو اس قسم کا کوئی شک تھا جس سے اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے ؟ جو اب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا : (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ) [ ہود : 114 ] ”نماز قائم کر۔“ اسی طرح فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ) [ الأحزاب : 1 ] ”اے نبی ! اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کر۔“ تو کیا نبی ﷺ پہلے نماز قائم نہیں کرتے تھے ؟ یا کیا آپ اس سے پہلے اللہ سے نہیں ڈرتے تھے ؟ اور کیا آپ کفار و منافقین کی اطاعت کیا کرتے تھے ؟ نہیں، ہرگز نہیں، اس قسم کے احکام جن پر نبی ﷺ اور مخلص اہل ایمان پہلے ہی کار بند ہوں، نازل کرنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ نبی ﷺ اور پہلے سے عمل کرنے والے ہمیشہ ان پر کاربند رہیں اور استقامت اختیار کریں اور دوسرے تمام انسان بھی نبی ﷺ کے واسطے سے اپنے آپ کو مخاطب سمجھ کر ان احکام پر عمل کریں کہ جب نبی کو یہ حکم ہے تو ہماری کیا اوقات ہے کہ ہم اس پر عمل نہ کریں۔ مَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُ :”اٰبَاۗؤُهُمْ“ سے مراد عادوثمود ہیں، کیونکہ عدنانی عربوں کی ماں بنوجرہم سے تھی جو اسماعیل ؑ کی بیوی تھی۔ بنو جرہم ثمود سے تھے اور قریش کی ماں بنو خزاعہ سے تھی، جو قصی کی بیوی تھی اور عرب میں بت پرستی عمرو بن لحی نے شروع کی تھی جو خزاعی تھا۔ (ابن عاشور) یعنی ان کی غیر اللہ کی پرستش کی بنیاد سوائے باپ دادا کی اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں ہے۔ (ابن کثیر) آبا و اجداد کی غیر اللہ کی عبادت کیا تھی ؟ یہی کہ وہ اپنے بزرگوں یا ان کے بتوں یا قبروں کو مصیبت کے وقت پکارتے تھے، انھیں اللہ کا بیٹا یا جز یا عین قرار دیتے تھے۔ اسی طرح عبادت میں ان کے نام کی نذر و نیاز ماننا، اللہ کے حصے کے ساتھ جانوروں اور کھیتیوں میں ان کا حصہ رکھنا، ان کو اللہ کی صفات، مثلاً علم غیب کا مالک، دور سے فریاد سننے اور مدد کرنے والا سمجھنا سبھی شامل ہیں۔ ہر زمانے کے مشرک ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں : (بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْن) [ المؤمنون : 81 ] ”بلکہ انھوں نے کہا جیسے پہلوں نے کہا تھا“ اور ان کے پاس تقلید آباء کے سوا کوئی دلیل نہیں ہوتی اور ان پر وہی محاورہ صادق آتا ہے کہ ”مَا أَشْبَہَ اللَّیْلَۃَ بالْبَارِحَۃِ“ ”آج کی رات کل کی رات کے کس قدر مشابہ ہے۔“ وَاِنَّا لَمُوَفُّوْهُمْ نَصِيْبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ : انھیں ان کا حصہ پورا پورا دینے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ کسی شخص کا تقدیر میں دنیا کا جو رزق اور آسائشیں لکھی گئی ہیں، وہ مسلمان ہو یا کافر ہر ایک کو ملیں گی، کافروں کو بھی ان کا حصہ پورا ملے گا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (20) دوسری یہ کہ ان کی نیکیاں جو انھوں نے دنیا میں کی ہیں ان کا پورا بدلہ ہم انھیں دنیا ہی میں دے دیں گے۔ دیکھیے سورة احقاف (20) اور تیسری یہ کہ ہم ان کی غیر اللہ کی عبادت اور شرک کا پورا پورا بدلہ دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن ضرور دینے والے ہیں۔ یہاں یہ آخری معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ ان لوگوں کو نبی ﷺ کی برکت سے پہلی قوموں کی طرح دنیا میں آسمانی عذاب نہیں دیا گیا، جس سے ان کا نام و نشان مٹ جاتا۔
Top