Tafheem-ul-Quran - Hud : 109
فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّمَّا یَعْبُدُ هٰۤؤُلَآءِ١ؕ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُ١ؕ وَ اِنَّا لَمُوَفُّوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ۠   ۧ
فَلَا تَكُ : پس تو نہ رہ فِيْ مِرْيَةٍ : شک و شبہ میں مِّمَّا : اس سے جو يَعْبُدُ : پوجتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ مَا يَعْبُدُوْنَ : وہ نہیں پوجتے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَعْبُدُ : پوجتے تھے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ دادا مِّنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَمُوَفُّوْهُمْ : انہیں پورا پھیر دیں گے نَصِيْبَهُمْ : ان کا حصہ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ : گھٹائے بغیر
پس اے نبی ؐ ، تُو ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ جن کی یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں۔ یہ تو (بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے)اُسی طرح پُوجا پاٹ کیے جارہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے،110 اور ہم ان کا حصہ انہیں بھرپور دیں گے بغیر اس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو
سورة هُوْد 110 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی ﷺ واقعی ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں تھے بلکہ دراصل یہ باتیں نبی ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے عامۃ الناس کو سنائی جارہی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مرد معقول کو اس شک میں نہ رہنا چاہیے کہ یہ لوگ جو ان معبودوں کی پرستش کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے میں لگے ہوئے ہیں تو آخر کچھ تو انہوں نے دیکھا ہوگا جس کی وجہ سے یہ ان سے نفع کی امیدیں رکھتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ یہ پرستش اور نذریں اور نیازیں اور دعائیں کسی علم، کسی تجربے اور کسی حقیقی مشاہدے کی بنا پر نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کچھ نری اندھی تقلید کی وجہ سے ہورہا ہے، آخر یہی آستانے پچھلی قوموں کے ہاں ھی تو موجود تھے، اور ایسی ہی ان کی کرامتیں ان میں بھی مشہور تھیں، مگر جب خدا کا عذاب آیا تو وہ تباہ ہوگئیں اور یہ آستانے یونہی دھرے کے دھرے رہ گئے۔
Top