Al-Quran-al-Kareem - Hud : 58
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا١ۚ وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
وَلَمَّا : جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم نَجَّيْنَا : ہم نے بچا لیا هُوْدًا : ہود وَّالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَنَجَّيْنٰهُمْ : اور ہم نے بچا لیا مِّنْ : سے عَذَابٍ : عذاب غَلِيْظٍ : سخت
اور جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے ہود کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ہمراہ ایمان لائے تھے، اپنی طرف سے عظیم رحمت کے ساتھ نجات دی اور انھیں ایک بہت سخت عذاب سے بچالیا۔
وَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُوْدًا۔۔ : ہمارے حکم سے مراد عذاب کا حکم ہے، اس کی تفصیل سورة احقاف، سورة حاقہ، سورة قمر اور دوسری سورتوں میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر شدید ہوا کی تیز و تند اور سرکش آندھی بھیجی، جو ان پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلی اور اس نے کفار میں سے ایک بھی متنفس کو باقی نہ چھوڑا۔ دیکھیے سورة حاقہ (6 تا 8) یہ تو دنیا کا عذاب تھا، آخرت میں ان کے لیے اس سے بھی سخت عذاب ”عَذَابٍ غَلِيْظٍ“ تیار ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہود ؑ اور ان کے ہمراہ ایمان لانے والوں کو ان دونوں عذابوں سے بچا لیا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی خوف ناک آندھی جب چلتی ہے تو وہ مومن و کافر ہر ایک پر گزرتی ہے تو ہود ؑ اور ان کے ساتھی کس طرح بچ گئے ؟ اسی طرح ثمود پر آنے والی صیحہ (چیخ) سے کافروں کے کان اور دل تو پھٹ گئے مگر صالح ؑ اور ایمان والوں کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ ہم نے انھیں اپنی عظیم رحمت کے ساتھ بچا لیا۔ ”رَحْمَةٍ“ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، پھر جو رحمت اللہ کی طرف سے ہو اس کی عظمت کا کیا ٹھکانا ہے۔ وہ آندھی اور چیخ اللہ کے امر سے کفار پر آئی تھیں، ان کے ساتھ رہنے والے مسلمانوں پر اثر انداز ہونے کا انھیں حکم ہی نہ تھا۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت کے دامن میں محفوظ تھے۔ ابابیل پرندوں کی کنکریوں سے ابرہہ اور اس کا لشکر کھائے ہوئے بھس کی طرح ہوگیا، مگر مکہ والوں کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ دراصل یہ حکم اس قادر مطلق کا تھا، اگر کسی دنیا والے کا ہوتا تو کافر و مومن دونوں پس جاتے، متنبی نے کہا ہے ؂ تُسَوِّدُ الشَّمْسُ مِنَّا بِیْضَ اَوْجُھِنَا وَمَا تُسَوِّدُ بِیْضَ الْعَیْنِ وَاللِّمَمٖ وَکَانَ حَالُھُمَا فِی الْحُکْمِ وَاحِدَۃً لَوِ احْتَکَمْنَا مِنَ الدُّنْیَا إِلٰی حَکَمٖ ”دھوپ ہمارے چہروں کی سفیدی کو سیاہ کردیتی ہے، جب کہ آنکھ کی سفیدی اور بالوں کی سفیدی کو سیاہ نہیں کرتی۔ حالانکہ اگر ہم دنیا کے کسی منصف کے پاس جائیں تو فیصلے میں دونوں کا حال ایک ہی ہے۔“ بیماری کے بعد شفا بھی رحمت ہے مگر بیماری آنے ہی نہ دینا یہ اس سے بھی عظیم رحمت ہے۔
Top