Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 49
قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَاۤ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : فرما دیں فَاْتُوْا : پس لاؤ بِكِتٰبٍ : کوئی کتاب مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس هُوَ : وہ اَهْدٰى : زیادہ ہدایت مِنْهُمَآ : ان دونوں سے اَتَّبِعْهُ : میں پیروی کروں اس کی اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے (جمع)
اے پیغمبر ان سے کہہ دیجیے، اچھا تو لائو اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہے، میں اسی کی پیروی کروں گا، اگر تم سچے ہو
قُلْ فَاتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ ھُوَاَھْدٰی مِنْھُمَآ اَتَّبِعْہُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ (القصص : 49) (اے پیغمبر ان سے کہہ دیجیے، اچھا تو لائو اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہے، میں اسی کی پیروی کروں گا، اگر تم سچے ہو۔ ) قریش سے ایک مطالبہ گزشتہ آیات سے یہ بات تو ثابت ہوجاتی ہے کہ عقل اور فطرت کی روشنی کے باوجود انسان عموماً ہَوائے نفس کی یورش، مفادات کی ہوس اور بعض طبعی عوارض سے اس حد تک مقہور واقع ہوا ہے کہ وحی الٰہی کی رہنمائی قبول کیے بغیر اس کے لیے کوئی چارہ نہیں۔ اسی وجہ سے پروردگار نے ہمیشہ انبیائے کرام مبعوث فرمائے اور کتابیں نازل کیں تاکہ انسان نارسائیِ فکر کا شکار نہ ہو اور ان کا اتباع کرکے منزل مقصود تک پہنچے۔ اب جبکہ اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ کے آخری رسول تشریف لے آئے اور آخری کتاب نازل ہوگئی تو بجائے اس کا اتباع کرنے کے قریش نے معجزات کے حوالے سے سوالات کھڑے کردیئے۔ قرآن کریم نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر معجزات ہی ہدایت کی اساس اور ضمانت ہیں تو پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے انکار کیوں کیا گیا۔ اور صاف صاف ان کے معجزات کو جادو قرار دیا گیا۔ جبکہ یہ بات طے ہوگئی ہے کہ ہدایت کے لیے بہرصورت کسی نہ کسی نبی اور کتاب کا ہونا ضروری ہے۔ چناچہ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اگر اس نامعقول بات کو مان بھی لیا جائے کہ تورات اور قرآن کریم کی ہدایت کافی نہیں تو پھر تم کوئی ایسی کتاب لائو جو ان دونوں سے بہتر ہدایت دے سکتی ہو۔ کیونکہ ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے نبی اور کتاب کا ہونا ازبس ضروری ہے۔ اور میں چونکہ ہدایت ہی کا پیروکار ہوں، اس لیے اگر تم کوئی اور کتاب پیش کردو جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہو اور قرآن اور تورات سے زیادہ ہدایت دیتی ہو تو مجھے اس کے اتباع سے بھی انکار نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تم ایسی کوئی کتاب نہیں رکھتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی میں سچے نہیں ہو۔ تمہیں محض اعتراض کرنے سے دلچسپی ہے، ہدایت سے دلچسپی نہیں۔ اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ نبی کریم ﷺ قرآن کریم کی ہدایت سے یکسو نہیں تھے، اس لیے آپ ﷺ کسی اور کتاب کی پیروی کے لیے بھی تیار تھے۔ بلکہ اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ جو کتاب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے وہ ہدایت اور نور کا سرچشمہ تھی، اور اسے واجب الاتباع ٹھہرایا گیا تھا۔ قرآن کریم اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہے۔ وہ پہلی کتابوں کا انکار نہیں کرتا بلکہ ان کا مصدق اور ان میں کی جانے والی ترمیمات و تحریفات کا اصلاح کرنے والا ہے۔ اس میں پیش کی جانے والی ہدایت تمام ہدایتوں کی جامع ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم کی پیروی درحقیقت تمام کتابوں کی پیروی ہے جس طرح آنحضرت ﷺ کا اتباع تمام رسولوں کا اتباع ہے۔ اب نہ اللہ تعالیٰ کے اس آخری رسول کے بعد کوئی اور رسول آئے گا اور نہ اس کتاب کے بعد کوئی اور کتاب آئے گی۔
Top