Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سمجھتے ؟
یعنی لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیتے ہو اور خود بھول جاتے ہو کہ اس میں نبی ﷺ پر ایمان لانے کا حکم بھی موجود ہے۔ (ابن ابی حاتم عن ابن عباس : 1؍122، ح : 474، 475) قتادہ ؓ نے فرمایا : ”بنی اسرائیل لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیکی کا حکم دیتے اور خود عمل نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں عار دلائی۔“ (عبد الرزاق) اب مسلمانوں کا حال بھی بنی اسرائیل جیسا ہوگیا، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو شخص خود عمل نہ کرے وہ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم نہ دے، کیونکہ یہود کو اس بات پر عار دلائی ہے کہ وہ عمل نہیں کرتے، اس پر نہیں کہ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور جو شخص دعوت دے کر خود عمل نہ کرے اسے دوسروں سے زیادہ سزا ملے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا، اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور اس کی انتڑیاں آگ میں نکل کر ڈھیر ہوجائیں گی، وہ ان کے گرد ایسے گھومے گا جیسے گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے۔ آگ والے اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں ! تیرا کیا معاملہ ہے ؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور ہمیں برائی سے منع نہیں کرتا تھا ؟ وہ کہے گا، میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود وہ کام نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔“ [ بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ النار و أنہا مخلوقۃ : 3267، عن أسامۃ ؓ ]
Top