Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 46
وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ۠   ۧ
وَقَوْمَ نُوْحٍ : اور قوم نوح مِّنْ قَبْلُ ۭ : اس سے قبل اِنَّهُمْ كَانُوْا : بیشک وہ تھے قَوْمًا فٰسِقِيْنَ : فاسق لوگ
اور قوم نوح کو بھی (ہم نے ہلاک کیا) اس سے پہلے بیشک وہ بھی بڑے بدکار لوگ تھے
[ 43] قوم نوح کے انجام کی تذکیر و یاد دہانی : چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ قوم نوح کا بھی ہم نے اس سے پہلے ہلاک کیا کہ وہ بھی بڑے سرکش و بدکار لوگ تھے۔ سو اس سے قوم نوح کے آخری اور ہولناک انجام کی تذکیر و یاددہانی فرمائی گئی کہ قوم نوح بھی آخر کار اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہی کہ وہ بھی بڑے فاسق لوگ تھے اور وہ اپنے کفر و عصیان کی وجہ سے اپنے خالق ومالک کی اطاعت و فرمانبرداری سے نکلے ہوئے لوگ تھے، اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی صدیوں بھر کی تبلیغ و نصیحت کے باوجود لوگ اپنی روش سے باز نہ آئے، تو آخر کار ہمیشہ کی تباہی کے اس ہولناک انجام سے دو چار ہو کر رہے، جو کہ ان کے لئے مقدر ہوچکا تھا، " والعیاذ باللّٰہ " سو یہ واقعہ بھی اس بات کی صاف وصریح نشانی اور قطعی ثبوت ہے، کہ راہ حق و ہدایت سے انحراف اور حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی دعوت کی تکذیب اور اس کے انکار کا آخری انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے۔ " والعیاذ باللّٰہ العظیم " قوم نوح کا قصہ اگرچہ مذکورہ بالا سب قوموں سے پہلے کا ہے لیکن یہاں اس کا ذکر سب کے آخر میں فرمایا گیا جس سے یہ اہم درس ملتا ہے کہ قرآن حکیم کوئی تاریخ یا جغرافیہ کی کتاب نہیں کہ واقعات کو ان کے وقوع کی ترتیب کے مطابق سلسلہ وار بیان کرے بلکہ یہ کتاب ہدایت ہے جس میں واقعات کو ہدایت کے اعتبار سے اور اسی کے مطابق اخذ و انتخاب کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور پھر قوم نوح کا ذکر بھی انداز بدل کر فرمایا گیا ہے۔ گزشتہ قوموں کا ذکر " وفی عاد " اور " وفی ثمود " کے الفاظ سے فرمایا گیا ہے مگر قوم نوح کا ذکر انداز بدل کر اس طرح فرمایا گیا کہ " وقوم نوح من قبل " تاکہ اس سے واضح ہوجائے کہ اس بدبخت قوم کا قصہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس لئے یہ دوسری قوموں کے حال اور ان کے مآل سے مختلف ہے۔
Top