Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ
: اور
لَقَدْ اٰتَيْنَآ
: تحقیق البتہ ہم نے دی
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
رُشْدَهٗ
: ہدایت یابی (فہم سلیم)
مِنْ قَبْلُ
: اس سے قبل
وَكُنَّا
: اور ہم تھے
بِهٖ
: اس کے
عٰلِمِيْنَ
: جاننے والے
اور یہ بات واقعی ہے کہ ہم نے ابراہیم کو اس سے پہلے صحیح راہ عطا کی اور ہم ان کو جانتے تھے،
داعی توحید حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو توحید کی دعوت دینا، بت پرستی چھوڑنے کی تلقین فرمانا، ان کے بتوں کو توڑ دینا، اور اس کی وجہ سے آگ میں ڈالا جانا، اور سلامتی کے ساتھ آگ سے باہر تشریف لے آنا سیدنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جس علاقے میں پیدا ہوئے وہ بت پرستوں کا علاقہ تھا۔ خود ان کا باپ بھی بت پرست تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو شروع ہی سے مشرکین کے عقائد اور اعمال سے دور رکھا تھا۔ وہاں کوئی موحد نہیں تھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو توحید سکھاتا اور شرک کی گمراہی پر متنبہ کرتا۔ لیکن سب سے بڑا معلم اللہ جل شانہ ہے۔ وہ جسے صحیح راہ بتائے، حق سمجھائے راشد و ہدایت سے نوازے اسے کوئی بھی گمراہ کرنے والا اپنے قول اور عمل سے راہ حق سے نہیں ہٹا سکتا۔ اللہ تعالیٰ شانہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اتنی بڑی بت پرست قوم کے اندر ہدایت پر رکھا اور ان میں اظہار حق اور دعوت حق کی استعداد رکھ دی تھی۔ اللہ تعالیٰ کو اس سب کا علم تھا۔ اسی کو فرمایا (وَ لَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّابِہٖ عٰلِمِیْنَ ) (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہوش سنبھالا تو اپنے گھرانے کو اور اپنی قوم کو شرک میں مبتلا دیکھا یہ لوگ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے خصوصاً اور اپنے قوم سے عموماً سوال فرمایا کہ یہ مورتیاں جن پر تم دھرنا دیئے بیٹھے ہو کیا ہیں ؟ سوال کا مقصد یہ تھا کہ ان خود تراشیدہ بےجان چیزوں کی عبادت کرنا، اس کی کیا تک ہے ؟ وہ لوگ کوئی معقول جواب نہ دے سکے (اور کوئی بھی مشرک معقول جواب نہیں دے سکتا۔ یہ لوگ ماں باپ کی اندھی تقلید کرتے رہتے ہیں) انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی پر پایا ہے اور یہی کرتے دیکھا ہے کہ ان مورتیوں کی پوجا کرتے تھے۔ انہی کی دیکھا دیکھی ہم بھی بت پرستی کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑی مضبوطی اور قوت کے ساتھ فرمایا کہ تم اور تمہارے باپ دادے صریح گمراہی میں ہو، وہ لوگ کہنے لگے کہ تم ہمارے پاس کوئی حق بات لے کر آئے ہو یا یوں ہی دل لگی کے طور پر باتیں کرتے ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں حق بات لے کر آیا ہوں۔ تم سے دل لگی نہیں کر رہا ہوں۔ تمہارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے۔ اسی نے تمہیں پیدا فرمایا، جس نے پیدا کیا اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کی عبادت کرنا یہ سراپا گمراہی نہیں ہے تو کیا ہے ؟ میں جو کہہ رہا ہوں وہ سچی بات ہے اور میں اس کے سچا ہونے کا گواہ ہوں۔ یعنی دلیل سے بات کرتا ہوں اور یاد رکھو کہ تم جن بتوں کی پوجا کرتے ہو اللہ کی قسم میں ان کے لیے کوئی تدبیر کروں گا اور ایسا داؤ استعمال کروں گا کہ ان پر بہت بڑی زد پڑے گی۔ مجھے موقعہ کا انتظار ہے تم کہیں گئے اور میں نے ان کا تیا پانچا کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بتوں کو توڑنا سورة صافات میں بھی مذکور ہے۔ وہاں یوں بیان فرمایا : جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو ؟ کیا جھوٹ موٹ کے معبودوں کو اللہ کے سوا چاہتے ہو ؟ سو رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ سو ابراہیم نے ستاروں کو ایک نگاہ بھر کر دیکھا اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہونے کو ہوں، غرض وہ لوگ ان کو چھوڑ کر چلے گئے تو یہ ان کے بتوں میں جا گھسے اور کہنے لگے کیا تم کھاتے نہیں ہو ؟ تم کو کیا ہوا تم بولتے نہیں ہو ؟ پھر ان پر قوت کے ساتھ جا پڑے اور مارنے لگے۔ سو وہ لوگ ان کے پاس دوڑتے ہوئے آئے، ابراہیم نے فرمایا کیا تم ان چیزوں کو پوجتے ہو جن کو خود تراشتے ہو حالانکہ تم کو اور تمہاری ان بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ وہ لوگ کہنے لگے ابراہیم کے لیے ایک آتش خانہ تعمیر کرو پھر ان کو اس دہکتی آگ میں ڈال دو ۔ غرض ان لوگوں نے ابراہیم کے ساتھ برائی کرنا چاہی سو ہم نے ان کو نیچا دکھا دیا۔ (سورۂ صافات، ترجمہ آیت 85 تا 98) معالم التنزیل میں مفسر سدی سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا ہر سال ایک میلہ لگتا تھا۔ اس میں جمع ہوتے تھے پھر واپس آکر اپنے بتوں کو سجدہ کر کے اپنے گھروں کو جاتے تھے۔ جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے بت توڑے۔ یہ ان لوگوں کے میلہ کا دن تھا۔ جب یہ لوگ میلہ جانے کے لیے بستی سے باہر جانے لگے تو ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نے کہا کہ اے ابراہیم تم بھی ہمارے ساتھ چل کر ہماری عید میں شریک ہوجاؤ تو مناسب ہوگا۔ ممکن ہے کہ تمہیں ہمارا دین پسندآ جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھوڑی دور ساتھ چلے اور ستاروں پر ایک نظر ڈالی۔ پھر فرمایا کہ میں تو مریض ہونے والا ہوں۔ (چونکہ وہ لوگ ستاروں کو مانتے تھے اس لیے ستاروں میں نظر ڈالنے کو ایک بہانہ بنا لیا) وہ لوگ تو میلہ میں چلے گئے اور وہاں اس خیال سے کھانارکھ دیا کہ واپس آنے تک یہ بت انہیں متبرک کردیں گے پھر اس میں سے ہم کھا لیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب کھانا رکھا دیکھا تو بطور استہزاء تمسخر فرمایا (اَلاَتَاْکُلُوْنَ ) (کیا تم کھاتے نہیں) وہ تو بت تھے ان میں نہ روح نہ جان، بولتے کہاں سے، جب جواب نہ ملا تو فرمایا کہ (مَالَکُمْ لاَ تَنْطِقُوْنَ ) (تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ہو) یہ بھی بطور تمسخر ہی تھا۔ اس کے بعد کلہاڑا لے کر چلانا شروع کردیا۔ خوب قوت کے ساتھ چلایا اور سارے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ہاں ان میں جو سب سے بڑا بت تھا اس کو نہیں توڑا اور اس کی گردن میں کلہاڑا لٹکا دیا۔ (لَعَلَّھُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ ) یہ انہوں نے اس امید پر کیا کہ ممکن ہے وہ لوگ اپنے معبودوں کا عاجز ہونا دیکھ لیں تو ابراہیم (علیہ السلام) یعنی ان کے دین کی طرف رجوع کرلیں اور بعض حضرات نے الیہ کی ضمیر بڑے بت کی طرف راجع کی ہے اور آیت شریفہ کا مطلب یہ لیا ہے کہ شاید وہ بڑے بت کی طرف رجوع کریں اور اس سے پوچھیں کہ ہمارے ان معبودوں کو کس نے توڑا، اور ممکن ہے کہ اس کے گلے میں کلہاڑا پڑا ہوا دیکھ کر اس سے یوں کہیں کہ ہو نہ ہو تو نے ہی یہ حرکت کی ہے۔ (معالم التنزیل، ص 248، ج 3) اب قوم کے لوگ آئے تو دیکھا کہ ان کے معبود کٹے پڑے ہیں۔ ٹکڑے ٹکڑے ہیں۔ دیکھ کر بڑے سٹ پٹائے اور آپس میں کہنے لگے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے ؟ جس نے ایسا کیا ہے وہ تو کوئی ظالم ہی ہوگا۔ پھر ان میں سے بعض یوں بولے کہ ہاں یاد آگیا ایک جوان جسے ابراہیم کہہ کر بلایا جاتا ہے، یہ ان کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا۔ اس نے یوں کہا تھا کہ میں تمہارے پیچھے ان کی گت بنا دوں گا۔ اندازہ ہے کہ یہ کام اسی نے کیا ہے۔ کہنے لگے کہ اچھا اسے بلاؤ۔ وہ سب لوگوں کے سامنے آئے۔ اگر لوگوں کے سامنے اقرار کرلے تو گواہ بن جائیں اور اس آدمی کو بھی پہچان لیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلایا گیا اور ان سے قوم کے لوگوں نے دریافت کیا کہ تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا نام کیوں لگاتے ہو۔ جو ان سب سے بڑا ہے اسی نے یہ سب کار ستانی کی ہے۔ اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں آتا تو انہیں سے پوچھ لو کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا ہے ؟ اگر وہ بولتے ہیں تو ان ہی سے دریافت کرنا چاہیے۔ یہ سن کر اول تو وہ لوگ ٹھڑے اور سوچ میں پڑگئے اور پھر آپس میں کہنے لگے کہ تم ہی ظالم ہو یعنی ابراہیم کی بات صحیح ہے۔ ان بتوں کی عبادت کرنا ظلم کی بات ہے۔ بھلا وہ کیسا معبود جو نہ بول سکے نہ بتاسکے۔ پھر شرمندگی کے مارے اپنے سروں کو جھکا لیا۔ لیکن شرک سے پھر بھی توبہ نہ کی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں (یہ دعوت کا ایک طریقہ کار ہے کہ مخاطب سے بات کرتے کرتے اسے ایسے موقع پر لے آئیں کہ اس کی زبان سے خود اس کے اپنے مسلک اور اپنے دعویٰ کے خلاف کوئی بات نکل جائے) جب ان لوگوں کے منہ سے بےاختیار یہ بات نکل گئی کہ یہ بولتے نہیں ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فوراً پکڑ لیا اور فرمایا کہ (اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکُمْ شَیْءًا وَّ لَا یَضُرُّکُمْ ) (کیا تم ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع دے سکے نہ ضرر پہنچا سکے) مزید فرمایا (اُفٍّ لَّکُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) (تف ہے تم پر اور ان چیزوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو) جب وہ لوگ جواب سے عاجز ہوگئے اور کوئی بات نہ بنی تو کہنے لگے کہ اس شخص کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ (یہ بات بھی عجیب ہے کہ عبادت کرنے والے اپنے معبودوں کی مدد کا دم بھر رہے ہیں اور اپنے معبودوں کا انتقام لے رہے ہیں۔ وہ کیسا معبود ہے جو دوسروں کی مدد کا محتاج ہو لیکن مشرکین کی عقلوں پر پتھر پڑے رہتے ہیں۔ ایسی موٹی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی) ۔ صاحب معالم التنزیل نے لکھا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے انہیں آگ میں جلانے کا فیصلہ کرلیا (جن میں نمرود بھی تھا) تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک گھر میں بند کردیا اور آگ جلانے کے لیے ایک احاطہ بنایا۔ پھر اس میں ایک مدت تک طرح طرح کی لکڑیاں ڈالتے رہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دشمنی میں کچھ ایسی صورت حال بن گئی کہ جو شخص مریض ہوجاتا یہ نذر مان لیتا تھا کہ میں اچھا ہوجاؤں گا تو ابراہیم کو جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کروں گا، عورتیں اپنی محبوب چیزوں کے حصول کے لیے یوں نذر مانتی تھیں کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو آتش ابراہیم میں لکڑیاں ڈالوں گی، لوگ لکڑیاں خرید خرید کر اس میں ڈالتے تھے۔ حد یہ ہے کہ جو کوئی عورت چرخہ کا تتی تھی وہ بھی اس کی آمدنی سے لکڑیاں خرید کر آتش ابراہیم میں ڈال دیتی تھی۔ یہ لوگ ایک ماہ تک لکڑیاں جمع کرتے رہے۔ اس کے بعد ہر جانب آگ لگا دی۔ آگ جلی، خوب شعلے نکلے اور اس جگہ کی گرمی کا یہ حال تھا کہ جانور بھی وہاں سے گزرتا تھا تو اس کی گرمی کی شدت کی وجہ سے مرجاتا تھا۔ ان لوگوں نے برابر ایک ہفتہ تک آگ جلائی (ایک آدمی کو جلانے کے لیے اتنی آگ کی ضرورت تو نہ تھی لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو یہ ڈر تھا کہ اگر ہم نے اس کو آگ میں ڈالا اور نہ جلا تو ہماری ذلت ہوگی، لہٰذا اتنی آگ جلاؤ اور اتنے دن تک جلاؤ کہ اس کی سخت حرارت میں یہ شخص جل ہی جائے اور زندہ با سلامت بچنے کا احتمال نہ رہے) ۔ آگ تو تیار کرلی لیکن اب سوال یہ تھا کہ اس آگ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ڈالیں کیسے ؟ اس کے پاس تو پھٹکنا بھی مشکل ہے۔ چہ جائیکہ اس میں باقاعدہ ڈالنے کے لیے ایک دو منٹ ٹھہریں۔ ابلیس چونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دشمنی میں آگے آگے رہتا تھا اور اب بھی اسلام کے دشمنوں کو سبق پڑھاتا رہتا ہے اس لیے اس موقع پر بھی حاضر ہوگیا اور اس نے سمجھایا کہ دیکھو کہ ایک منجنیق بناؤ (یہ ڈھیکلی کی طرح کسی بھاری چیز کو اٹھانے اور پھینکنے کا آلہ تھا۔ آج کل عمارتیں بنانے میں جو کرین استعمال کی جاتی ہے اسے دیکھنے سے منجنیق کی کچھ تقریبی صورت اور اس کا عمل سمجھ میں آسکتا ہے) منجنیق تیار ہوگئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر منجنیق کے ذریعہ آگ میں ڈال دیا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیا تو پانیوں پر مقرر فرشتہ حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ چاہیں تو میں آگ کو بجھا دوں اور ہواؤں پر مقرر فرشتہ حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ چاہیں تو آگ کو ہواؤں میں اڑا دوں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں اور یوں بھی کہا (حَسْبِیَ اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ) (مجھے اللہ کافی ہے وہ بہترین کار ساز ہے) حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ جب انہیں آگ میں ڈال رہے تھے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا اے ابراہیم کوئی حاجت ہے ؟ جواب میں فرمایا کہ مجھے تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا اچھا تو اپنے رب ہی سے سوال کرلو۔ فرمایا میرے رب کو میرا حال خوب معلوم ہے۔ اس کے علم میں ہونا ہی کافی ہے۔ چناچہ انہوں نے تفویض سے کام لیا اور دعا تک نہ کی۔ (ف صلی اللہ علی خلیلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگ کو حکم ہوا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کے فرمان کے تابع ہے۔ مخلوقات میں جو صفات ہیں اور جو تاثیرات ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا فرمانے سے ہیں۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا انہیں خطاب ہوتا ہے وہ اسے سمجھتے بھی ہیں گو ہم نہیں سمجھتے۔ آگ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ ٹھنڈی ہوجا لہٰذا وہ سرد پڑگئی اور چونکہ برداً کے ساتھ سلاماً بھی فرمایا تھا اس لیے اتنی ٹھنڈی بھی نہ ہوئی کہ ٹھنڈک کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہلاک ہوجاتے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سات دن آگ میں رہے۔ آگ نے ان پر کچھ اثر نہ کیا۔ ہاں ان کے پاؤں میں جو بیڑیاں تھیں وہ جل گئیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں تھے کہ سایہ ڈالنے والا فرشتہ ان کے پاس پہنچا جو انہیں کی صورت میں تھا۔ وہ انہیں مانوس کرتا رہا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جنت سے ایک کرتہ اور ایک قالین لے کر آئے۔ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے اتار کر آگ میں ڈالا گیا تھا) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے انہیں کرتا پہنایا اور نیچے قالین بچھایا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر وہیں باتیں کرنے لگے۔ نمرود اپنے محل میں سے بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) باغیچے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک شخص بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ آس پاس جو لکڑیاں ہیں انہیں آگ جلا رہی ہے لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صحیح سالم ہیں۔ باتوں میں مشغول ہیں۔ نمرود نے کہا کہ اے ابراہیم ! تم اس آگ سے نکل سکتے ہو ؟ فرمایا ہاں نکل سکتا ہوں۔ یہ فرمایا اور اپنی جگہ سے روانہ ہوگئے۔ حتیٰ کہ آگ سے باہر نکل آئے۔ یہ دیکھ کر نمرود نے کہا کہ اے ابراہیم ! تمہارا معبود تو بڑی قدرت والا ہے۔ جس کے حکم کی آگ بھی پابند ہے۔ میں تمہارے معبود کے لیے چار ہزار گائیں نذر کے طور پر ذبح کروں گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جب تک تو اپنے دین پر رہے گا اللہ تعالیٰ تجھ سے کچھ بھی قبول نہ فرمائے گا۔ تو اپنے دین کو چھوڑ دے اور میرا دین اختیار کرلے۔ نمرود نے کہا میں اپنے دین کو اور ملک کو نہیں چھوڑ سکتا۔ ہاں بطور نذر کے جانور ذبح کر دوں گا۔ اس کے بعد نمرود نے جانور ذبح کردیئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تکلیف پہنچانے سے بھی باز آگیا۔ (معالم التنزیل، ص 250، وص 251، ج 3) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دشمنوں نے خوب آگ جلائی اور بہت زیادہ جلائی جس کے بارے میں سورة صافات میں فرمایا (قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَاناً فَاَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ ) (کہنے لگے کہ اس کے لیے ایک مکان بناؤ پھر اسے سخت جلنے والی آگ میں ڈال دو ) اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے اولاً آگ جلانے کے لیے مستقل ایک مکان بنایا پھر بہت زیادہ آگ جلائی جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ڈال دیا۔ لفظ الجحیم کے بارے میں قاموس میں لکھا ہے و الجحیم النار الشدیدۃ التاجج و کل نار بعضھا فوق بعض کالحجمۃ ویضم و کل نار عظیمۃ فی مھواۃ والمکان الشدید الحر کالجاھم۔ پوری قوم میں نمرود اور اس کی حکومت میں شخص واحد ہے جسے سب نے مل کر بہت بڑی آگ میں ڈال کر جلانا چاہا مگر اپنے مقصد میں نا کام ہوئے اور ذلیل ہوئے اور انہیں نیچا دیکھنا پڑا۔ اسی کو سورة الانبیاء میں (وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَا ھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ ) سے اور سورة صافات میں (فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَسْفَلِیْنَ ) سے تعبیر فرمایا۔ ہم نے جو کچھ معالم التنزیل سے نقل کیا ہے اس میں بعض چیزیں تو وہی ہیں جو سیاق قرآن کے موافق ہیں۔ ان سے قرآن مجید کے مفہوم کی تشریح ہوتی ہے اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو بظاہر اسرائیلیات سے منقول ہیں، چونکہ ان سے کسی حکم شرعی کا تعلق نہیں ہے اور کسی نص قرآنی کے معارض بھی نہیں ہیں اس لیے ان کو نقل کردیا گیا ہے۔ کتب حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ مذکورہ سے متعلق جو چند روایات ملتی ہیں وہ ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔ گرگٹ کی خباثت اور اس کے قتل کرنے میں اجر حضرت ام شریک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گرگٹ کو قتل کرنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر پھونک رہا تھا۔ (رواہ البخاری، ص 274، ج 2) مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں ڈال دیا تو گرگٹ نے بھی اپنی خباثت کا ہنر دکھایا، وہ بھی وہاں جا کر پھونکنے لگا، جہاں اتنی بڑی آگ جل رہی تھی وہاں اس کے پھونکنے نہ پھونکنے سے کیا ہوسکتا تھا ؟ لیکن اس کی طبعی خباثت نے اس پر آمادہ کیا اور شیطان نے اسے استعمال کرلیا، کیونکہ دشمن سے جتنی بھی دشمنی ہو سکے چوکتا نہیں ہے۔ وہ فریق مقابل کو تکلیف پہنچانے کے لیے جو کچھ کرسکتا ہے اس سے باز نہیں رہتا، چونکہ گرگٹ خبیث چیز ہے زہریلا جانور ہے اس لیے آپ ﷺ نے مارنے کا حکم فرمایا بلکہ اسے مارنے میں جلدی کرنے کی ترغیب دی، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے گرگٹ کو پہلی ہی ضرب میں مار دیا اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور جس نے دو ضربوں میں مارا اس کے لیے اس سے کم اور جس نے تیسری ضرب میں مارا اس کے لیے اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔ (رواہ مسلم ص 236، ج 2) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قیامت کے دن سب سے پہلے کپڑے پہنائے جائیں گے : حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم لوگ اس حال میں جمع کیے جاؤ گے کہ پاؤں میں جوتے اور جسموں پر کپڑے نہ ہوں گے اور غیر مختون بھی ہو گے اور سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جائیں گے (رواہ البخاری) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ جزوی فضیلت اس وجہ سے دی جائے گی کہ انہیں دشمنوں نے کپڑے اتار کر آگ میں ڈالا تھا۔ شراح حدیث نے یہ بات لکھی ہے۔ (قال الحافظ فی الفتح ص 39 و یقال ان الحکمۃ فی خصوصیۃ ابراھیم بذالک لکونہ القی فی النار عریانا وقیل لانہ اول من لبس السراویل) ۔ ثَلاَثُ کَذِباتٍ اور ان کی تشریح اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قیامت کے دن شفاعت کبریٰ سے عذر فرما دینا حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے کوئی جھوٹ نہیں بولا سوائے تین باتوں کے، دو باتیں تو ان میں ایسی تھی جو اللہ کی ذات کے بارے میں تھیں (یعنی ان میں محض اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود تھی) ان میں سے ایک تو یہ تھی کہ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ جانے سے انکار کرنے کے لیے یوں فرما دیا کہ انی سقیم (میں بیمار ہوں) اور دوسری بات یہ کہ (بتوں کو توڑ کر) فرما دیا (بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ) (بلکہ ان کے بڑے نے ایسا کیا) اور تیسری بات یہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ اپنی بیوی سارہ کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے کہ ان کا ایک ظالم بادشاہ پر گزر ہوا۔ اس ظالم بادشاہ کو کسی نے بتادیا کہ یہاں ایک شخص ہے اس کے ساتھ بہت خوبصورت عورت ہے۔ اس ظالم نے انہیں طلب کرنے کا حیلہ اختیار کر کے آدمی بھیجا۔ جو آدمی قاصد بن کر آیا اس نے کہا کہ یہ عورت کون ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے، اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سارہ کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ اس ظالم بادشاہ سے خطرہ ہے۔ اگر اسے معلوم ہوگیا کہ تو میری بیوی ہے تو تجھے اپنے پاس رکھ لے گا۔ سو اگر تجھے اس کے پاس جانا پڑے اور سوال کرے تو کہہ دینا کہ تم میری بہن ہو (ممکن ہے کہ وہ یہ بات سن کر تجھے چھوڑ دے) اور بہن کہنا کوئی غلط بھی نہیں ہے کیونکہ تو میری دینی بہن ہے۔ اس سر زمین میں میرے اور تیرے علاوہ کوئی مومن نہیں ہے۔ اس ظالم بادشاہ نے حضرت سارہ کو جبراً اور قہراً طلب کیا تو نا چار ہو کر پہلی بار چلی گئیں۔ ادھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نماز شروع کردی۔ جب حضرت سارہ اس ظالم بادشاہ کے پاس پہنچیں تو اس نے ہاتھ ڈالنا چاہا۔ جوں ہی ہاتھ بڑھایا اس کو دورہ پڑگیا اور پاؤں مارنے لگا اور حضرت سارہ سے درخواست کی کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دو میں تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچاؤں گا۔ انہوں نے دعا کردی تو وہ چھوٹ گیا۔ لیکن پھر شرارت سوجھی اور دو بارہ ہاتھ بڑھایا۔ اس مرتبہ پھر اسے دورہ پڑگیا جیسے پہلی بار پڑا تھا یا اس سے سخت تھا۔ پھر کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کر دو ۔ میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا انہوں نے دعا کردی تو وہ چھوٹ گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ایک دربان کو بلایا اور کہا کہ تو میرے پاس انسان کو نہیں لایا تو میرے پاس شیطان کو لے آیا ہے۔ اس کے بعد اس نے سارہ کو واپس کردیا اور ان کے ساتھ ایک خادمہ بھی کردی جن کا نام ہاجرہ تھا۔ سارہ واپس آئیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے نماز کی حالت میں ہاتھ کے اشارہ سے سوال کیا کیا ماجرا ہوا ؟ سارہ نے بیان کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کے مکر کو الٹا اسی پر ڈال دیا اور ایک ہاجرہ نامی عورت خدمت کے لیے دے دی۔ (رواہ البخاری ص 474، ج 2) حدیث بالا میں ثلاَثُ کَذِبَاتٍ (تین جھوٹ) کی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے اول تو یہ کہ جب قوم کے لوگوں نے اپنے ساتھ باہر جانے کو کہا تو فرما دیا کہ اِنِّیْ سَقِیْم (بلاشبہ میں بیمار ہوں) پھر جب ان کے بتوں کو توڑ دیا اور انہوں نے کہا کہ اے ابراہیم کیا تم نے ان کے ساتھ ایسا کیا ہے ؟ تو فرمایا (بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ) (بلکہ ان کے بڑے نے کیا ہے) ان دونوں باتوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں باتیں اللہ کے لیے تھیں کیونکہ اپنے کو بیمار بتا کر ان کے ساتھ جانے سے رہ گئے اور پھر اسی پیچھے رہ جانے کو بتوں کو توڑنے کا ذریعہ بنا لیا، اور اس طرح بتوں کی عاجزی ظاہر کر کے معبود حقیقی کی توحید کی دعوت دے دی، تیسری بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بیوی کو یہ سمجھا دیا کہ میں نے ظالم بادشاہ کے قاصد کو بتادیا ہے کہ تم میری بہن ہو تم سے بات ہو تو تم بھی یہی بتانا کہ یہ بات سن کر ظالم تمہیں چھوڑ دے، چونکہ مطلق بہن نسبی بہن کے لیے بولا جاتا ہے اس لیے اسے جھوٹ میں شمار فرمایا۔ اگرچہ انہوں نے دینی بہن مراد لے لی تھی اور یہ بات اخی فی الاسلام کہہ کر انہیں بتا بھی دی تھی۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے یوں نہیں فرمایا کہ یہ اللہ کی راہ میں تھی اور اس کے خلاف بھی نہیں فرمایا کیونکر اس میں تھوڑا سا نفس کا حصہ بھی ہے۔ اول تو یہ واقعہ سفر ہجرت کا ہے اور ہجرت اللہ کے لیے تھی پھر کسی بھی مومن عورت کو کافر سے بچانا بھی اجر وثواب کا کام ہے۔ پھر اپنی مومن بیوی کی حفاظت کرنا جو عفت اور عصمت میں معاون ہے کیونکر ثواب کا کام نہ ہوگا۔ اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ص 92، ج 6) میں بحوالہ مسند احمد حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو تین باتیں کہیں (جو بظاہر کذب ہے) ان کو انہوں نے اللہ کے دین کی حفاظت ہی کے واسطے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اختیار کیا۔ حضرات علمائے حدیث نے فرمایا ہے کہ تین باتیں جنہیں جھوٹ سے تعبیر فرمایا ان میں بظاہر جھوٹ ہے لیکن چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بطور تعریض کے یہ باتیں کہی تھیں۔ (جن میں ایسا پہلو بھی نکل سکتا ہے کہ انہیں جھوٹ نہ کہا جائے) اس لیے صریح جھوٹ بھی نہ تھیں۔ مثلاً (اِنِّیْ سَقِیْمٌ) فرمایا اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تمہارے ساتھ جانے کو میرا دل گوارا نہیں کرتا۔ اس نا گواری کو بیماری سے تعبیر فرمایا۔ اگرچہ وہ لوگ جسمانی بیمار سمجھے، اور بعض علماء نے یہ بھی فرمایا کہ لفظ سقیم صفت کا صیغہ ہے۔ اس میں کسی زمانہ پر دلالت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں، اسی طرح جب ان لوگوں نے بتوں کے بارے میں پوچھا تو یہ فرمایا ہی نہیں کہ میں نے توڑے۔ ہاں یوں فرما دیا کہ ان کے بڑے نے توڑے ہیں۔ اگر بڑے سے بڑا بت ہی مراد لیا جائے تو یہ بظاہر کذب ہے۔ لیکن مقابل سے بات کرتے ہوئے اس کے منہ سے اپنے موافق کوئی بات اگلوانے کے لیے کوئی بات کہہ دی جائے جو علی سبیل الفرض و التقدیر ہو تو یہ بھی تعریض کے مشابہ ایک صورت بن جاتی ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ بولتے ہوں تو سمجھ لو کہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے۔ اس کو معلق بالشرط کردیا اور اس طرح تعلق بالشرط جائز ہے۔ اس میں کذب نہیں ہے۔ اب رہی بیوی کو بہن کہنے والی بات تو اس کی تاویل اس وقت انہوں نے خود ہی کردی اور دینی بہن مراد لے کر جھوٹ سے بچ گئے۔ اس سب کے باو جود جو تینوں باتوں کو کذب فرمایا یہ ان کے بلند مرتبہ کے اعتبار سے ہے۔ بڑوں کی بڑی باتیں ہیں۔ گناہ تو ان باتوں میں ہے ہی نہیں۔ کیونکہ یہ سب چیزیں بطور تاویل اور تعریض کی تھیں اور تھیں بھی حق پر جمنے کے لیے اور حق کے پھیلانے کے لیے لیکن پھر بھی انہوں نے جو کچھ فرمایا اسے کذب میں شمار کرلیا گیا۔ (صحیح بخاری، ص 74، ج 2) میں یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن جب سارے انسانوں کو شفاعت کی ضرورت ہوگی تو حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے۔ وہ انکار کردیں گے اور فرمائیں گے کہ ابراہیم خلیل الرحمن کے پاس جاؤ۔ جب ان کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے کہ میں شفاعت کرنے کے مقام پر نہیں ہوں۔ اس موقع پر وہ اپنے ان کذبات کو یاد کرلیں گے جو ان سے دنیا میں سرزد ہوئے تھے۔ یہ انکار شفاعت بھی اسی لیے ہوگا کہ ان سے جو مذکورہ تینوں باتیں صادر ہوئی تھیں ان کی وجہ سے اپنے کو لائق شفاعت نہیں سمجھیں گے۔ ع جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے قال الحافظ فی الفتح (ثنتین منھن فی ذات اللّٰہ) خصھما بذالک لان قصۃ سارۃ و ان کانت ایضا فی ذات اللّٰہ لکن تضمنت حظا لنفسہ و ندلہ بخلاف اثنین الاخیرتین فانھما فی ذات اللّٰہ محض و قد وقع فی روایۃ المذکورۃ ان ابراھیم لم یکذب قط الاثلث کذبت و ذلک فی ذات اللّٰہ و فی حدیث ابن عباس عند احمد وللّٰہ ان جادل بھن لاعن دین اللّٰہ۔ وقال ایضا و اما اطلاقہ الکذب علی الامور الثلاثۃ لکونہ قال قولا یعتقدہ السامع کذبا لکنہ اذا حقق لم یکن کذبا لانہ من باب المعاریض المحتملۃ لا مرین لیس بکذب محض۔ ملا علی قاری (رح) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں حدیث شفاعت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں و الحق انھا معاریض و لکن لما کانت صورتھا صورۃ الکذب سماھا اکاذیب و استنقص من نفسہ لھا فان من کان اعرف باللّٰہ و اقرب منہ منزلۃ کان اعظم خطرا او اشد خشیۃ و علی ھذا القیاس سائر ما اضیف الی الانبیاء علیھم السلام من الخطایا، قال ابن الملک الکامل قد یواخذ بما ھو عبادہ فی حق غیرہ کما قیل حسنات الابرار سیئات المقربین۔ یعنی حق بات یہ ہے کہ ان تینوں میں تعریض ہے (صریح جھوٹ نہیں ہے) لیکن چونکہ بظاہر جھوٹ کی صورت میں تھیں اس لیے جھوٹ سے تعبیر کردیا اور اپنی ذات کو مرتبہ شفاعت سے کمتر سمجھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جس قدر بھی معرفت حاصل ہوگی اور جتنا زیادہ قرب حاصل ہوگا اسی قدر وہ اپنے بارے میں زیادہ خطرہ محسوس کرے گا اور اس میں بہت زیادہ خوف و خشیت کا ظہور ہوگا۔ دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرف جو خطایا منسوب ہیں ان کو بھی اسی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ ابن الملک نے فرمایا ہے کہ جو شخص کامل ہو بعض مرتبہ اس بات پر اس کا مواخذہ ہوجاتا ہے جو غیر کے حق میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ فائدہ : یہاں جو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس ظالم بادشاہ نے حضرت سارہ ؓ کو بلوایا تھا اگر اسے قبضہ کرنا اور چھیننا ہی تھا تو کسی کی بیوی یا بہن ہونے سے کیا فرق پڑتا تھا۔ ظالم جب ظلم پر تل جائے تو اسے مقصد بر آری کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ لہٰذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ سے جو یہ فرمایا کہ تم یوں کہہ دینا کہ میں ان کی بہن ہوں اس بات کو کہنے اور سمجھانے کی کیا ضرورت تھی ؟ پھر جب انہوں نے بتادیا کہ کہ میں اس کی بہن ہوں تو اس نے پھر بھی ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی (یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہاتھ پاؤں کے دورے میں مبتلا کردیا اور حضرت سارہ کی حفاظت فرمائی) اس سوال کو حل کرنے کے لیے مفسرین اور شراح حدیث نے کئی باتیں لکھی ہیں جن میں ایک یہ بات ہے کہ وہ ظالم بادشاہ گو ظالم تھا لیکن اپنے طور پر جس کسی مذہب کا پابند تھا اس میں کسی کی بہن کو اس کے بھائی کی موجودگی میں چھیننے کی اجازت نہیں تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز میں لگے ہوئے تھے۔ ادھر حضرت سارہ نے بھی وہاں پہنچ کر نماز شروع کردی۔ نیز حضرت سارہ نے وہاں یہ دعا بھی کی اللھم ان کنت تعلم انی امنت بک و برسولک و احصنت فرجی الاعلی زوجی فلا تسلط علی الکافر (اے اللہ آپ کے علم میں ہے کہ میں آپ پر اور آپ کے رسول پر ایمان لائی اور میں نے اپنی شرم کی چیز کو اپنے شوہر کے علاوہ ہر کسی سے محفوظ رکھا۔ لہٰذا آپ مجھ پر کافر کو مسلط نہ فرمائیے) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور کافر کے تسلط سے نجات دی۔ (فتح الباری) اس ظالم بادشاہ نے شیطانی حرکت کا خود ارادہ کیا لیکن اپنے بعض دربانوں سے کہا کہ تم میرے پاس شیطان کو لے آئے ہو۔ ہاتھ پاؤں کا دورہ پڑا تو اسے شیطان کی طرف منسوب کردیا اور پاکباز عورت کو شیطان بنایا۔ زبانی طور پر اس نے حضرت سارہ کو شیطان بنا دیا لیکن ان کی نماز اور دعا سے متاثر ہو کر اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ یہ کوئی بڑی حیثیت والی خاتون ہے۔ اس کی خدمت کے لیے ایک خادمہ دینی چاہیے۔ چناچہ اس نے ایک ہاجرہ نامی عورت ان کی خدمت کے لیے دے دی۔ وہ واپس ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گئیں اور ہاجرہ نامی عورت کو بھی اپنے ساتھ لے آئیں۔ یہ ہاجرہ نامی عورت حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ بنیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے فلسطین سے آئے اور اپنے چھوٹے بچے اسماعیل اور ان کی والدہ کو مکہ مکرمہ کی چٹیل زمین اور سنسان میدان میں چھوڑ دیا۔ انہیں دو ماں بیٹوں سے مکہ مکرمہ کی آبادی شروع ہوئی اور انہیں دونوں ماں بیٹوں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کی ایک شاخ چلی جنہیں بنو اسماعیل اور عرب کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے خوب ہی نوازا۔ انہیں مشرکین کے درمیان ہوتے ہوئے داعی توحید بنایا۔ دشمنوں نے آگ میں ڈال دیا تو اس سے صحیح سالم نکال دیا اور آتش نمرود کو گلزار ابراہیم بنا دیا اور انہیں اپنا دوست بنا لیا۔ کما فی سورة النساء (وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلاً ) (اور ان سے (بشمولیت اسماعیل (علیہ السلام) کعبہ شریف تعبیر کرایا پھر ان سے حج کی ندا دلوائی۔ اور انہیں ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کا باپ بنایا۔ خاتم النّبیین ﷺ بھی انہیں کی ذریت میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) جب کعبہ شریف بنا رہے تھے اس وقت یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ تعالیٰ مکہ کے رہنے والوں میں سے ایک رسول بھیج دینا۔ آپ کی یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ ان دونوں کی نسل سے سیدنا محمد رسول ﷺ کو پیدا فرمایا۔ آپ کی نبوت کا ظہور مکہ مکرمہ میں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سارے عالم کے لیے تا قیام قیامت ہادی اور داعی بنا دیا اور آپ پر نبوت ختم فرما دی اور آپ کو ملت ابراہیمی کے اتباع کا حکم دیا۔ ملت ابراہیم کی بہت سی چیزیں خاتم الانبیاء ﷺ کی شریعت کا جزو ہیں اور توحید تو تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا سب سے پہلا اور مرکزی نقطہ ہے۔
Top