Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 28
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ
قَالَ : (موسی) نے کہا رَبُّ : رب الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ : تم سمجھتے ہو
اس نے کہا جو مشرق و مغرب کا رب ہے اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے، اگر تم سمجھتے ہو۔
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔۔ : شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ”موسیٰ ؑ ایک بات کہے جاتے تھے اللہ کی قدرتیں بتانے کو اور فرعون بیچ میں اپنے سرداروں کو ابھارتا تھا کہ ان کو یقین نہ آجائے۔“ پاگل ہونے کے الزام کے جواب میں موسیٰ ؑ نے اب وہ دلیل پیش کی جو ان کے جدّ امجد ابراہیم خلیل اللہ ؑ نے پیش کی تھی کہ ”رب العالمین“ وہ ہے جو مشرق و مغرب اور ان کے مابین کا رب ہے، جو ہمیشہ سے سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے، تمہیں رب ہونے کا زعم ہے تو ذرا سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا دو۔ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ : مجھے دیوانہ بتاتے ہو اور خود عقل مند ہونے کا دعویٰ کرتے ہو، اگر تم میں واقعی عقل ہے تو بتاؤ کہ رب وہ ہے جس کے حکم سے سورج ہمیشہ مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب ہوتا ہے، یا تم جو ایک دفعہ بھی ایسا نہیں کرسکتے۔ پہلی دفعہ موسیٰ ؑ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے متعلق نرم لفظ استعمال فرمائے، یعنی ”ۭاِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ“ لیکن جب اس نے مجنون ہونے کا الزام لگایا تو موسیٰ ؑ نے سخت الفاظ استعمال فرمائے ”ۭاِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ“ کہ اگر تم سمجھتے ہو۔ (ابن جزیّ)
Top