Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 28
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ
قَالَ : (موسی) نے کہا رَبُّ : رب الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ : تم سمجھتے ہو
(موسی نے) کہا کہ مشرق اور مغرب میں اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب کا مالک بشرطیکہ تم کو سمجھ ہو
موسیٰ ( علیہ السلام) کی ایک اور دلیل : 28: قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَھُمَا اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (موسیٰ نے کہا وہی مشرق ومغرب کا رب ہے اور ان کے درمیان جو کائنات ہے اس کا رب ہے اگر تم عقل رکھتے ہو) تو تم میرے قول سے استدلال کر کے اپنے رب کو پہچان لوگے۔ اور یہ اصل مقصودی ارشاد ہے۔ نمبر 2۔ پھر اس عام سے ان کے اور ان کے آباء و اجداد کے نفوس کو وضاحت کیلئے خاص کیا کیونکہ دیکھنے کو اپنا نفس سب سے قریب تر ہوتا ہے۔ اور وہ بھی جس سے وہ پید ہوا۔ اور وہ مشاہدات بھی قریب تر ہوتے جو ولادت سے وفات تک دیکھتا ہے۔ نمبر 3۔ پھر آپ نے مشرق و مغرب کی تخصیص فرمائی کیونکہ طلوع شمس ایک جانب اور غروب آسمان کے دوسری جانب ہوتا ہے اور سال کے مواسم میں ایک ٹھیک اندازے سے اور صحیح حساب سے ہوتا ہے اس لئے یہ ظاہر ترین استدلال ہے اسی ظہور عمومی کی بناء پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے احیاء واماتت سے نمرود بن کنعان کے سامنے اسی دلیل کی طرف رجوع فرمایا۔ ایک قول یہ ہے کہ فرعون نے اپنے سوال کی حقیقت سمجھے بغیر ماؔ سے سوال کردیا مگر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا حقیقی جواب دیا تو اس کے دماغ میں یہ بات پیدا ہوئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو جواب سے رکنے والے ہیں اس لئے کہ میں نے سوال ماہیت کا کیا اور وہ جواب ربوبیت اور آثار صنعت سے دے رہے ہیں۔ اسی لئے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے جواب سے ان کو تعجب میں ڈالنے کیلئے کہا۔ الا تستمعون ؟ پس موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے قول جیسا قول کیا۔ اس پر فرعون نے ان کو مجنون قرار دیا یہ سمجھ کر کہ موسیٰ اس کے جواب سے رخ موڑنے والے ہیں۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے تیسری بار پہلی کلام جیسا کلام دھرا کر واضح کردیا کہ فرد حقیقی کی معرفت و پہچان صفات سے ہی ہوتی ہے اور ماہیت کا سوال ناممکن ہے اور اس ارشاد میں اسی طرح اشارہ ہے ان کنتم تعقلون یعنی اگر تم میں عقل ہوگی تو تم جان لو گے کہ اس کی معرفت کا راستہ یہی ہے جب فرعون حیرت زدہ ہوا تو اسے آثار صنعت باری تعالیٰ کے آثار کو رد کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
Top