Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 28
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ
قَالَ : (موسی) نے کہا رَبُّ : رب الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ : تم سمجھتے ہو
” موسیٰ نے کہا ” مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ، اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں۔ “
قال رب المشرق والمغرب وما بینھما ان کنتم تعقلون (28) مشرق و مغرب تو ہر دن انسانوں کو نظر آتے ہیں اور اس دنیا میں ایک خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ منظر تو بڑا عبرت آموز ہے لیکن چونکہ یہ 24 گھنٹوں میں مسلسل دھرایا جاتا ہے اس لئے لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لوگ اس کے عادی ہوگئے ہیں ان الفاظ سے جس طرح طلوع و غروب کا مفہوم ذہن میں آتا ہے ، اسی طرح طلوع و غروب کے مقام کا مفہوم بھی ان میں ہے۔ یہ دو مناظر حضرت نے اس لئے پیش کئے کہ طلوع و غروب کے مظاہر کو اور مقامات و طلوع اور مقامات غروب کو کوئی جابر بدل نہیں سکتا۔ نہ ان دونوں مناظر کی اس خصوصیت کا کوئی انکار کرسکتا ہے کہ آغاز تخلیق سے آج تک اس نظام کے اندر کوئی تبدیلی کوئی تقدیم و تاخیر نہیں ہے۔ کند ذہن سے کند ذہن شخص بھی اگر ان حقائق پر غور کرے تو وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ غافل سے غافل دل جاگ اٹھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مکالمے میں ان کے ضمیروں کو جاگنے کی بےحد کوشش کر رہے ہیں ، دعوت دے رہے ہیں کہ غور و فکر کرو۔ ان کنتم تعقلون (26 : 28) ” اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں۔ “ سرکش حکمران دنیا میں کسی چیز سے نہیں ڈرتے جس قدر وہ قوم کی بیداری سے ڈرتے ہیں۔ ان کو دل و دماغ کی بیداری سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ سرکش حکمران ہمیشہ ان لوگوں کو سخت حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جو لوگوں میں بیداری کرتے ہیں۔ اس لئے ایسے حکمران ہمیشہ ایسے لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرعون کو حضرت موسیٰ پر بہت غصہ آجاتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی دعوت دل و دماغ کی پرسکون تاروں کو چھیڑ رہی ہے ، اس لئے وہ اب جوش میں آجاتا ہے۔ دھمکی دیتا ہے اور کھلے تشدد کی بات کرتا ہے اور جس وقت کسی شخص کے پاس دلائل کے ہتھیار ختم ہوجاتے ہیں تو وہ تشدد پر اتر آتا ہے۔
Top