Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا بلاشبہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے، میں عنقریب تمہارے پاس اس سے کوئی خبر لاؤں گا، یا تمہارے پاس اس سے سلگایا ہوا انگارا لے کر آؤں گا، تاکہ تم تاپ لو۔
اِذْ قَالَ مُوْسٰي لِاَهْلِهٖٓ اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا : ”تَصْطَلُوْنَ“ ”صَلِيَ یَصْلٰی“ (ع) سے باب افتعال ہے۔ اصل میں ”تَصْتَلِیُوْنَ“ تھا، تاء کو طاء سے بدل دیا اور یاء حذف ہوگئی۔ ”شِھَابٌ“ شعلہ یا انگارا۔ ”قَبَسٍ“ (کسی آگ سے) سلگایا ہوا۔ ان آیات کی تفسیر سورة اعراف میں اور سورة طٰہٰ کی ابتدا میں گزر چکی ہے، یہاں صرف اس مقام سے متعلق چند باتیں ذکر ہوں گی۔ ”اِذْ“ سے پہلے ”اُذْکُرْ“ محذوف ہے، یعنی اس وقت کو یاد کر جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا۔ اس کی طرح تجھے بھی کسی پیشگی علم یا توقع کے بغیر وحی عطا کی گئی ہے۔ (دیکھیے قصص : 86) اور اس کے بعد ذکر کردہ انبیاء اور ان کی اقوام کے قصوں میں تیرے اور تیری قوم کے لیے بہت سا علم و حکمت کا سامان موجود ہے۔
Top