Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
(یاد کیجیے وہ وقت) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھروالوں سے کہا میں نے آگ دیکھی ہے میں ابھی وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا تمہارے پاس آگ کا شعلہ لکڑی وغیرہ میں لگا ہوا لاتا ہوں تاکہ تم تاپ سکو،6۔
6۔ ذکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مدین سے واپسی کے وقت کوہ طور سے قریب ہو کر گزرنے کا ہے، آپ مصر کی راہ بھول گئے تھے۔ سردی کا موسم اور اندھیری رات تھی، حاشیے سورة طہ پ 16 میں گزر چکے۔ (آیت) ” لاھلہ “۔ اھل پر بھی حاشیہ وہیں گزر چکا ہے۔ اگلی سورة القصص میں بھی یہی قصہ خفیف لفظی تغیرات کے ساتھ آرہا ہے۔ فقہاء مفسرین نے اس لفظی اختلاف ومعنوی اتحاد سے استدلال یہ کیا ہے کہ حدیث نبوی کی روایت بالمعنی جائز ہے۔ واختلاف الالفاظ فی ھاتین السورتین والقصۃ واحدۃ دلیل علی جواز نقل الحدیث بالمعنی (مدارک)
Top