Al-Qurtubi - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں سے (راستہ کا) پتہ لاتا ہوں یا سلگتا ہوا انگارا تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم تاپو
( اذ قال موسیٰ لا۔۔۔۔۔۔ ) اذا قال موسیٰ لا ھلہ اذ فعل مضمر کی وجہ سے منصوب ہے اور و فعل اذکر ہے گویا اسے اس ارشاد : وانک لتقی القرآن من لدن حکیم علیم۔ فرمایا : مراد ہے اے محمد ! ﷺ اس کی حکمت اور اس کے علم کے آثار میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ لیجئے جب انہوں نے اپنی بیوی سے کہا : انی انست نارا یعنی میں نے دور سے اسے دیکھا ہے۔ حرث بن حلذہ نے کہا : آنست نباۃ وافزعھا القناص عصرا وقدونا الامساء اس نے خفی آواز محسوس کی، عمر کے وقت شکاریوں نے اسے خوفزدہ کیا جب کہ شام قریب آچکی تھی۔ ساتیکم منھا بخبر اوتیکم بشھاب قبس لعلکم تصطلون عاصم، حمزہ اور کسائی نے بشھاب قمس قرأت کی ہے (1) 1 ؎۔ المحرر الوجز، جلد 4، صفحہ 249 شھاب تنوین کے ساتھ ہے۔ باقی قراء نے تنوین کے بغیر اضافت کی صورت میں پڑھا ہے۔ مراد آگ کا شعلہ ہے۔ ابو عبید اور ابو حاتم نے اسے پسند کیا ہے۔ فراء نے تنوین کو ترک کرنے کا گمان کیا ہے کہ یہ ان کے اس قول کے قائم مقام ہے ولدار الآخرۃ مسجد الجامع اور صلاۃ الاولی شے کو اپنی ہی ذات کی طرف مضاف کیا جب اسماء مختلف ہوئے۔ نحاس نے کہا : شی کو اپنی ہی ذات کی طرف منسوب کرنا بصریوں کے نزدیک محال ہے کیونکہ لغت میں اضافت کا معنی ایک شے کو دوسری شے کے ساتھ ملانا تو یہ محال ہے کہ ایک چیز کو اپنی ہی ذات کے ساتھ ملایا جائے۔ ایک چیز کو دوسری چیز کی طرف مضاف کیا جاتا ہے تاکہ ملک اور نوع کا معنی واضح ہوجائے تو یہ محال ہے کہ یہ واضح ہو کہ وہ اپنی ذات کا مالک ہے یا وہ اپنی نوع سے ہے۔ و شھاب قیس نوع اور جنس کی اضافت ہے جس طرح تو کہتا ہے : ھذا ثوب خز، خاتم حدید وغیرہ۔ شہاب ہر نور والی چیز کو کہتے ہیں جس طرح ستارہ اور جلائی گئی لکڑی، قس اسے کہتے ہیں جس کو اخذ کیا جائے، جیسے انگارہ وغیرہ۔ معنی ہے ر وشن جو انگارے میں سے ہو۔ یہ جملہ بولا جاتا : اقبست قبسا : اسم قیس ہے جس طرح تو کہتا ہے : قبضت قبضا، اسم قبض ہے۔ یہ جائز ہے کہ اسم ہو صفت نہ ہو۔ یہ بھی جائز ہے کہ وہ صفت ہو جہاں تک اس کے صفت نہ ہونے کی تعلق ہے تو کیونکہ وہ کہتے ہیں : قبستہ اقبسہ قبسا، قبس کا معنی مقبوس ہے۔ جب وہ صفت ہے تو زیادہ اچھا یہ ہے کہ وہ نعت ہو۔ اس میں اضافت احسن ہوگی جب صفت نہ ہو۔ یہ نوع کی اپنی جنس کی طرف اضافت ہے جس طرح خاتم فضۃ وغیرہ۔ اگر بیان اور حال کے طریقہ پر قبس کو منصوب پڑھا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ قرآن کے علاوہ میں اسے بشھاب قبسا پڑھنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ مفعول مطلق ہو، بیان ہو یا حال ہو۔ لعلکم تصطلون، طاء کی اصل تاء ہے یہاں اس کو طاء سے بدل دیا گیا، کیونکہ طاء حروف مطبقہ میں سے ہے اور صاد بھی حروف مطبقہ میں سے ہے دونوں کو جمع کرنا اچھا ہے۔ اس کا معنی ہے وہ ٹھنڈک سے بچنے کے لیے گرمی حاصل کرتے ہیں۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : اصطلی یصطلی جب وہ گرمائش حاصل کرے۔ شاعر نے کہا : النار فاکھۃ الشتاء فمن یرد اکل الفوا کہ شاتنا فلیصطل آگ موسم سرما کا پھل ہے جو موسم سرما میں پھل کھانے کا ارادہ کرتے تو وہ آگ تاپے۔ زجا ج نے کہا : ہر سفید چیز جو نور والی ہو تو وہ شہاب ہوتا ہے۔ ابو عبید نے کہا : شہاب سے مراد آگ ہے۔ ابو نجم نے کہا : کانما کان شھابا واقدار اضاء ضواء ثم صار خامدا گویا وہ روشن شہاب تھا اس نے روشن کیا پھر وہ بجھ گیا۔ احمد بن یحییٰ نے کہا : شہاب سے مراد ایسی لکڑی ہے جس کی ایک جانب انگارہ ہو اور دوسری جانب آگ نہ ہو۔ نحاس کا قوس اس میں اچھا ہے : شہاب سے مراد روشن شعاع ہے اسی سے وہ ستارہ ہے جس کی روشنی آسمان میں پھیلتی ہے۔ شاعر نے کہا : فی کفہ صفدۃ مشفۃ فیھا سنان کشعلۃ القبس اس کی ہتھیلی میں سیدھا نیزہ ہے اس میں پھل ہے جس طرح قبس کا شعلہ ہوتا ہے۔ فلما جاء ھا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس جگہ آئے جہاں انہوں نے گمان کیا تھا کہ وہ آگ ہے تو وہ نور تھا، یہ وہب بن منبہ کا قول ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آگ کو دیکھا تو اس کے قریب کھڑے ہوگئے اسے دیکھا کہ وہ درخت کی شاخ سے نکل رہی ہے وہ درخت انتہائی سر سبز ہے جسے علیق کہتے ہیں۔ آگ بڑھی ہی جاتی ہے اور درخت زیادہ سر سبز و شاداب اور حسین ہوتا جاتا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) متعجب ہوئے اور اس کی طرف اس مٹھے کو جھٹکایا جو ان کے ہاتھ میں تھا تاکہ اس سے اس کو روشن کریں وہ درخت ان کی طرف جکا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس سے خوفزدہ ہوگئے تو پیچھے ہٹ گئے پھر وہ لگا تار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا طمع کرتا رہا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کی طمع کرتے رہے یہاں تک کہ معاملہ واضح ہوگیا کہ یہ مامور ہے وہ اس کے امر کو نہیں جانتے یہاں تک کہ ندا کی گئی : نودی ان بورک من فی النار ومن حولھا یہ بحث سورة طہ میں گزر چکی ہے۔ نودی اللہ تعالیٰ نے اسے ندا کی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ونادینہ من جانب الطورالایمن ( مریم : 52 ) ان بورک زجا ج نے کہا : ان محل نصب میں ہے اصل کلام اس طرح ہے بانہ۔ یہ جائز ہے کہ یہ محل رفع میں ہوا سے نائب فاعل بنا دیا جائے۔ ابو حاتم نے حکایت بیان کی ہے کہ حضرت ابی اور حضرت ابن عباس اور مجاہد کی قرأت میں ان بورکت النار ومن حولھا ہے (1) نحاس نے کہا : اس کی مثل اسناد صحیح میں نہیں پایا جاتا۔ اگر یہ صحیح ہو تو یہ قرأت تفسیر کی بناء پر ہوگی۔ برکت آگ اور جو اس کے ارد گرد فرشتے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تھے ان کی طرف لوٹ رہی ہے۔ کسائی نے عربوں سے روایت کیا ہے : بارک اللہ، بارک فیہ۔ ثعلبی نے کہا : عرب کہتے ہیں : بارک اللہ، بارک فیہ، بارک علیک، بارک لک۔ اس میں چار لغات ہیں۔ شاعر نے کہا : فبورکت مولودا و برورکت ناشنائ وبورکت عند الشیب اذ انت اشیب تو حالت ولادت میں با برکت تھا جوانی کے عالم میں با برکت تھا اور تو بڑھاپے کے وقت با برکت ہے جب تو سب سے بوڑھا ہے۔ طبری نے کہا : بورک من فی النار بورک فی من فی النار نہیں کہا یہ اس کی لغت کے مطابق ہے جو بارک اللہ کہتا ہے یہ جملہ کہا جاتا ہے : بار کہ اللہ، بارک لہ، بارک علیہ اور بارک فیہ، سب ایک معنی میں ہیں یعنی جو آگ پر تھا اس پر برکت ہے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تھے یا جو آگ کے قریب تھے نہ کہ یہ جو اس کے وسط میں تھے۔ سدی نے کہا : آگ میں ملائکہ تھے تو برکت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرشتوں کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی اے موسیٰ ! تجھ پر برکت ڈالی گئی اور ان فرشتوں میں برکت رکھی تھی جو اس کے ارد گرد تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تحیہ اور تکریم تھی جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں کو زبانوں پر سلام کیا۔ فرمایا : رَحْمَتُ اللہ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ ط (ھود : 73) 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 250 تیسرا قول وہ ہے جو حضرت ابن عباس، حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کا ہے۔ جو آگ میں تھا وہ مقدس تھا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس سے مراد اپنی ذات لی جو مقدس دعا کی ہے۔ حضرت ابن عباس اور محمد بن کعب نے کہا : آگ اللہ تعالیٰ کا نور ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ندا کی جب کہ وہ نور میں تھے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عظیم نوردیکھا تو اسے آگ گمان کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے آگ سے اپنی آیات اور کلام کے ساتھ ظہور فرمایا نہ کہ وہ کسی چیز میں تحیز فرمانے والا تھا ” وَ ھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰـہٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰـہٌ ط “ (الزخرف : 84) نہ یہ کہ ان دونوں میں تحیز فرماتا لیکن وہ ہر فعل میں ظاہر ہوتا ہے تو اس کے ذریعے فاعل کا وجود ظاہر ہوتا ہے اس تعبیر کی بناء پر کہا گیا : یعنی جو آگ میں ہے اس کی سلطان اور قدرت میں برکت رکھی گئی۔ اسکی قول یہ کیا گیا ہے : آگ میں جو اللہ تعالیٰ کا امر ہے اس میں برکت رکھی گئی وہ امر جسے اللہ تعالیٰ نے علامت بنایا۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابن عباس ؓ کے قول کی صحت پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ اس کے الفاظ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور نہ ہی اس کی شان ہے کہ وہ سوئے وہ میزان کو پست کرتا ہے اور اسے بلند کرتا ہے اس کا حجاب نور ہے اگر وہ حجاب کو ہٹا دے تو اس کی ذات کے انوار ہر شے کو جلا دیں جہاں تک اس کی نظر پہنچے “۔ پھر ابو عبیدہ نے اس آیت کی تلاوت کی ” ان بورک من فی النار من حولھا وسبحن اللہ رب العٰلمین۔ “ اسے امام بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔ امام مسلم نے حضرت ابو موسیٰ سے جو روایت نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں رسول اللہ ﷺ پانچ باتیں فرمانے کے لیے ہمارے درمیان کھڑے ہوئے فرمایا :’ ’ اللہ تعالیٰ نہیں سوتا اور اس کو زیبا نہیں کہ وہ سوئے وہ میزان کو پست کرتا ہے اور اسے بلند کرتا ہے۔ اس کی بارگاہ میں رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے پیش کیا جاتا ہے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے پیش کیا جاتا ہے اس کا حجاب نور ہے “۔ (1) ابوبکر کی روایت میں نار کے الفاظ ہیں ” اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کی ذات کے انوار، ان تمام چیزوں کو جلادیں مخلوقات میں سے جہاں اس کی نظر پہنچے “ (2) ابو عبید نے کہا : سبحات سے مراد اس کی ذات کا جلال ہے اسی وجہ سے کہا جاتا ہے : سبحان اللہ سے مراد اس کی تعظیم اور تنزیہ ہے لو کشفھا فرمان کا مطلب ہے اگر حجاب ان کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا دیا جائے اور اپنی رویت کے لیے ان کو ثابت نہ رکھے تو وہ سب جل جائیں اور وہ اس کے دیدار کی طاقت نہ رکھیں۔ ابن جریج نے کہا : آگ حجابوں میں سے ایک حجاب ہے یہ سات حجاب ہیں۔ حجاب العزۃ، حجاب الملک، حجاب السلطان، حجاب النار، حجاب النور، حجاب الغمام، حجاب الماء، اصل بات یہ ہے کہ مخلوق حجاب میں ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کو کوئی چیز حجاب میں نہیں رکھ سکتی۔ آگ نور ہی تھی اسے نار کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) 1 ؎۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات رئویۃ المومنین الآخرۃ ربھم سبحانہ و تعالیٰ ، جلد 1، صفحہ 99 2 ؎۔ سنن ابن ماجہ باب فی الکرت الجھمیۃ، حدیث نمبر 191، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ نے اسے آگ ہی گمان کیا تھا۔ عرب نور اور نارکو ایک دوسرے کی جگہ رکھتے رہتے ہیں۔ سعید بن جبیر نے کہا : آگ اپنی ذات کے اعتبار سے تھی اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام ایک طرف سے اسے سنایا اور اس کی جانب سے اپنی ربوبیت کو اس کے لیے ظاہر کیا یہ اسی طرح یہ ہے جس طرح تورات میں مکتوب ہے جاء اللہ من سیناء و اشرف من ساعیر واستعلی من جبال فاران، فمحیئہ من سیناء سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سے مبعوث کرنا۔ اشرافہ من ساعیر سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس سے مبعوث کرنا اور استعلاوہ من فاران سے مراد حضرت محمد ﷺ کو مبعوث کرنا ہے۔ فاران سے مراد مکہ مکرمہ ہے سورة القصص میں اس بارے میں زیادہ وضاحت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام درخت سے آپ کو سنایا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ وسبحن اللہ رب العٰلمین۔ اللہ رب العالمین کے لیے تنزیہ و تقدیس ہے۔ کئی مواقع پر یہ بحث پہلے گزر چکی ہے معنی ہے جو اس کے ارد گرد ہیں وہ کہتے ہیں : وسبحن اللہ تو اسے حذف کردیا گیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کلام اس وقت کی جب وہ ندا کو سننے سے فارغ ہوئے مقصود اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا اور اس کی پاکی بیان کرنا تھا، یہ سدی کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں سے ہے معنی ہے جس نے اللہ، جو رب العالمین ہے کی پاکی بیان کی اس میں برکت رکھ دی ہے، ابن شجرہ نے اس کی حکایت بیان کی ہے۔ یموسیٰ انہ انا اللہ العزالحکیم ہاء ضمیر بنیا دو سہارہ ہے کہ کو فیوں کے قول میں یہ کنایہ نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ یہ امر شان سے کنایہ ہے۔ انا اللہ العزیز میں ایسا غالب ہوں کہ جس کی مثال کوئی شے نہیں۔ الحکیم وہ اپنے فعل اور امر میں حکیم ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! کس نے ندا کی ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انہ یعنی میں ہی تجھے ندا کرنے والا ہوں۔ میں اللہ ہوں۔ والق عصاک وہب بن منبہ نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ اس کو چھوڑدیں تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اس لیے فرمایا تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو علم ہوجائے کہ ان سے کلام کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے رسول ہیں۔ ہر نبی کے لیے اس کی ذات میں آیت کا ہونا ضروری ہے جس کے ساتھ وہ نبوت کو جان لے۔ آیت میں حذف ہے یعنی اپنا عصا پھینک دے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا اپنے ہاتھ سے پھینک دیا تو وہ حرکت کرتا ہوا سانپ ہوگیا گویا وہ جان ہے، وہ ہلکے چھوٹے سے جسم والا سانپ ہوتا ہے۔ کلبی نے کہا : نہ وہ چھوٹا نہ بڑا ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : پہلے اسے چھوٹے سانپ کی شکل میں بدلا گیا جب آپ مانوس ہوگئے تو وہ بڑا ہوگیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : ایک دفعہ وہ چھوٹا سانپ بنا اور ایک دفعہ وہ دوڑتا ہوا سانپ بنا جو مونث تھا ایک دفعہ وہ ثعبان بن گیا، یہ سانپوں میں سے بڑا سانپ ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : انقلبت ثعبانا تھتھز کا معنی ہے گویا وہ جان تھا اس کی جسامت ثعبان جیسی تھی اور پھرتی جان جیسی تھی اور اھتزازہ یعنی وہ دوڑتا ہوا سانپ ہے۔ جان کی جمع جنان ہوتی ہے اس معنی میں ایک حدیث ہے نھی عن قتل الجنان التی فی البیوت وہ بار کی سانپ جو گھروں میں ہوتے ہیں ان کے قتل سے منع کیا۔ ولی مدبراً انسان کی عادت کے مطابق خوفزدہ ہو کر پیٹھ پھیر کر مڑا (1) ولم یعقب نہ لوٹے۔ یہ مجاہد کا قول ہے۔ قتادہ نے کہا : متوجہ نہ ہوئے (2) یموسی لا تخفف اے موسیٰ ! سانپ اور اس کی تکلیف سے نہ ڈرو (3) انی لا یخاف لدی المرسلون گفتگو مکمل ہوگئی پھر استثناء منقطع کی صورت میں کلام کی، فرمایا الا من ظلم۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ مخدوف سے مستثنیٰ ہے۔ معنی ہے میری بارگاہ میں مرسلین خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ ان کے علاوہ جو ظالم ہوتے ہیں وہ خوف کھاتے ہیں۔ الا من ظلم ثم بدل حسنا بعد سوء کیونکہ وہ نہیں ڈرتا۔ یہ فراء کا قول ہے۔ نحاس نے کہا : محذوف سے مستثنیٰ محال ہے کیونکہ یہ ایسی چیز سے مستثنیٰ ہے جو ذکر نہیں کی گئی اگر یہ جائز ہو تو یہ بھی جائز ہے انی لا ضرب القوم الا زیدا معنی یہ ہوا انی الا اضرب القوم وانما اضرب غیر ھم الا زیدا، یہ بیان کی ضد ہے آنے والا یاسا ہے جس کا معنی معروف نہیں۔ فراء نے بھی یہ گمان کیا ہے کہ بعض نحوی الا کو وائو کے معنی میں استعمال کرتے ہیں معنی ہوگا ولا من ظلم۔ شاعر نے کہا : وکل اخ مفارقہ اخرہٗ لعمر ابیک الا الفرقد ان ہر بھائی کو اس کا بھائی چھوڑنے والا ہے تیرے باپ کی قسم اور فرقدان بھی چھوڑنے والا ہے۔ محل استدلال الا الفرقدان ہے۔ نحاس نے کہا : الا کو وائو کے معنی میں لینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور کلام کسی صورت میں جائز نہیں الا کا معنی وائو کے خلاف ہے، کیونکہ جب تو نے کہا : جاءنی اخوتک الا زیدا تو نے زید کو اس سے نکال دیا جس میں بھائی داخل تھے۔ دونوں کے درمیان کوئی نسبت اور قربت نہیں۔ آیت میں ایک اور قول ہے وہ یہ کہ یہاں استثناء متصل ہو تقدیر کلام ہوگی الا من ظلم من المرسلین باتیان الصغائر التی لا یسلم منھا احد سوی ماروی عن یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) ۔ مگر مرسلین میں سے جو صغیرہ گناہ کا ارتکاب کرے ظلم کرے ایسا صغیرہ جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں سوائے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے جن کے با رے یہ روایت کی گئی ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم ﷺ کے بارے میں ذکر کیا ہے : ” لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “ (الفتح : 1) مہدوی نے اس کو ذکر کیا ہے۔ نحاس نے اسے پسند کیا ہے ان میں سے جو لغزش کرے گا اللہ تعالیٰ کو اس کا علم تھا تو اس کی اللہ تعالیٰ نے استثناء کردی۔ فرمایا : الا من ظلم ثم بدل حسنا بعدسوء “ کیونکہ وہ ڈرتا ہے اگرچہ میں نے اس کی خطا کو معاف کردیا۔ ضحاک نے کہا : مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت دائود (علیہ السلام) ہیں۔ زمحشری نے کہا : جس طرح کی فروگزاشت حضرت آدم (علیہ السلام) ، حضرت یونس (علیہ السلام) ، حضرت دائود (علیہ السلام) ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) ، حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کو گھونسا رسید کر کے کی۔ اگر کوئی کہنے والا کہے : توبہ اور مغفرت کے بعد خوف کا کیا معنی ہے ؟ اس کو کہا جائے گا : اللہ تعالیٰ کی ذات کو جاننے والوں کا یہی طریقہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کے بارے میں ڈرتے ہی رہتے ہیں وہ اس سے امن میں نہیں ہوتے کہ توبہ کی شرطوں میں سے کوئی شرط ایسی بھی ہو جس کو وہ بجا نہ لاتے ہوں وہ اس کے بارے میں مطالبہ سے ڈرتے ہیں۔ 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 251 2 ؎۔ ایضاً 3 ؎۔ ایضاً حضرت حسن بصری اور ابن جریج نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : میں نے تجھے اپنے نفس کو قتل کرنے سے ڈرایا۔ حضرت حسن بصری نے کہا : انبیاء سے لغزش ہوتی تھی تو ان کو عتاب بھی کیا جاتا تھا (1) ثعلبی، قشیری، ماوردی اور دوسرے علماء نے کہا : اس تعبیر کی بناء پر استثناء صحیح ہے یعنی مگر انبیاء اور نبیین میں سے جس نے نبوت سے قبل صغیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قبطی کو قتل کرنے کی وجہ سے ڈرے اور اس عمل سے توبہ کی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ نبوت کے بعد صغائرہ اور کبائرہ سے معصوم تھے۔ سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ میں کہتا ہوں : پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ وہ قیامت کے روز اس سے اپنے آپ کو خارج کریں گے جس طرح شفاعت والی حدیث میں ہے جب مقرب آدمی سے کوئی لغزش واقع ہوجاتی ہے اگرچہ اس کی وہ خطاء بخش دی جائے تب بھی اس کا اثر باقی رہ جاتا ہے۔ جب تک اثر اور تہمت قائم ہو تو خوف باقی ہوتا ہے یہ عفویت کا خوف نہیں ہوتا بلکہ عظمت کا خوف ہوتا ہے۔ سلطان کے نزدیک جس پر تہمت لگائی گئی ہو تو وہ تہمت کی وجہ سے دل میں اضطراب پاتا ہے جو اسے اس طرف لے جاتا ہے کہ اس پر اعتماد کی صفائی مقدر ہو رہی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس فرعون کے بارے میں امر وقوع پذیر ہوا تھا۔ پھر انہوں نے بخشش طلب کی اور اپنی جان پر ظلم کا اقرار کیا پھر آپ کو بخش دیا گیا پھر مغفرت کے بعد کہا : قَال رب بما انعمت علی فلن اکون ظھیرا للمجرمین۔ (القصص) پھر اگلے روز ایک اور فرعونی سے ان کو آزمایا گیا اور آپ نے ارادہ کیا کہ اسے بھی پکڑیں تو اس ارادہ کے ساتھ ایک اور امر وقوع پذیر ہوگیا۔ اگلے روز ان کو آزمائش میں ڈالا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول کی یوں حکایت بیان کی ہے : فلن اکون ظھیرا اللمجرمین۔ ( القصص) اقتدار کا کلمہ لن افعل سے عیاں ہے تو ارادہ کی وجہ سے ان پر عتاب کیا گیا جب انہوں نے پکڑنے کا ارادہ کیا اور نہ پکڑا۔ اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کو آپ پر مسلط کردیا یہاں تک کہ اس نے آپ کے راز کو ظاہر کردیا کیونکہ جب اسرائیلی نے آپ کو دیکھا کہ پکڑنے کے لیے آپ آستین چڑھا رہے ہیں تو اس نے گمان کیا کہ وہ اس کو پکڑ رہے ہیں، تو اس نے راز ظاہر کردیا : ” قَالَ یٰـمُوْسٰٓی اَ تُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًام بِالْاَمْسِ ق “ (القصص : 19) فرعونی بھاگ گیا اور اس نے فرعون کو اس امر کے بارے میں آگاہ کردیا جو اسرائیلی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں راز ظاہر کردیا تھا۔ گزشتہ دن کے مقتول کا امر مخفی تھا یہ معلوم نہ تھا کہ کس نے اس کو قتل کیا ہے۔ جب فرعون کو اس کا علم ہوگیا تو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تلاش میں آدمی بھیجے تاکہ ان سے قتل کا بدلہ لے۔ سخت تلاشی کی گئی اور تمام چوکوں پر پہرے دار لگا دیئے گئے تو ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا عرض کی :” قَالَ یٰـمُوْسٰٓی اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِکَ لِیَقْتُلُوْکَ “ ( القصص : 20) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نکلے جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خوف اس حادثہ کی وجہ سے تھا اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا قرب نصیب فرمایا، انہیں عزت دی اور کلام کے ساتھ چن لیا تو باقی ماندہ تہمت نے ان کو گرفت میں لیے رکھا اور پیچھا نہ چھوڑا۔ 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 251 وادخل یدک فی جیبک تخرج بیضا من غیر سو اس بارے میں گفتگو سورة طہٰ میں گزر چکی ہے۔ فی تسع ایت نحاس نے کہا : اس بارے میں جو گفتگو کی گئی ان میں سے سب سے بہترین یہ قول ہے کہ یہ معجزہ بھی ان نو معجزات میں داخل ہے۔ مہدوی نے کہا : معنی ہے الق عصاک اور وادخل یدک فی جیبک یہ دونوں ان نو معجزات میں سے دو معجزات ہیں۔ قشیری نے کہا : معنی ہے جس طرح تو کہتا ہے : خرجت فی عشرۃ نفر۔ تو تو بھی ان میں سے ایک ہوتا ہے یعنی تو دس میں سے دسواں نکلا۔ فی، من کے معنی میں ہے کیونکہ یہ اس کے قریب ہے جس طرح تو کہتا ہے : خذلی عشرا من الابل فیھا فحلان دونوں فحل ان دس میں ہوتے ہیں۔ اصمعی نے امرء القیس کے قول کے بارے میں کہا : وھل ینعسن من کان آخر عھدہ ثلاثین شھرا فی ثلاثۃ احوال محل استدلال فی ثلاثۃ احوال ہے اس میں فی امن کے معنی میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فی مع کے معنی میں ہے معجزات دس ہیں ان میں سے ایک یہ بیضاء ہے نو نشانیاں یہ ہیں : سمندر کا پھٹنا، عصا، ٹڈی دل، جوئیں، طوفان، خون مینڈک، قحط سالی، شکل و صورت کا بدل جانا۔ تمام کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔ الی فرعون وقومہ فراء نے کہا : کلام میں اضمار ہے کیونکہ کلام اس پر دلالت کرتا ہے یعنی آپ فرعون اور اس کی قوم کی طرف مبعوث کیے گئے۔ انھم کانو قوما فسقین اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے خارج ہونے والے ہیں۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ فلما جاء تھم ایتنا مبصرۃ واضح اور واشگاف۔ اخفش نے کہا : اسے مبصرۃ پڑھنا بھی جائز ہے یہ مصدر ہے جس طرح یہ جملہ کہا جاتا ہے : الولد مخینۃ قالوا ھذا سحر مبین وہ جھٹلانے میں سابقہ عادت پر قائم دوائم رہے اسی وجہ سے کہا : وجحدوبھا واستیقنتھا انفسھم ظلما ًوعلوا انہیں یقین تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور یہ جادو نہیں لیکن انہوں نے کفر کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے تکبر کیا۔ یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ معاند تھے۔ ظلما ًوعلوا مصدر مخدوف کی صفت ہونے کی بناء پر منصوب ہیں یعنی انہوں نے انکار کیا ان کا انکار ظلم اور اپنے آپ کو بلند سمجھنے کی وجہ سے تھا۔ باء زائدہ ہے تقدیر کلام یہ ہوگی حجد ھا، یہ ابو عبیدہ کا قول ہے۔ فانظر اے محمد ! صلی علیہ علیک وسلم دیکھو کیف کان عاقبۃ المفسدین سرکش کافروں کا معاملہ کیسے ہوا اپنے دل کی نظر سے دیکھ اور اس میں تدبر کر۔ خطاب آپ کو ہے اور مراد غیر ہیں۔
Top