Al-Quran-al-Kareem - Aal-i-Imraan : 32
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ١ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَطِيْعُوا : تم اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں دوست رکھتا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
کہہ دے اللہ اور رسول کا حکم مانو، پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو بیشک اللہ کافروں سے محبت نہیں رکھتا۔
قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ: پچھلی آیت میں رسول اللہ ﷺ کے اتباع کا حکم تھا جس کا معنی آپ کے نقش قدم پر چلنا، آپ کی پیروی کرنا ہے، اگرچہ اتباع میں حکم ماننا بھی آجاتا ہے مگر اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا خاص طور پر الگ ذکر فرمایا، جس کا معنی حکم ماننا ہے۔ آگے فرمایا کہ اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ ایسے کافروں سے محبت نہیں رکھتا۔ یہاں بات صاف سمجھ میں آرہی ہے کہ بات مختصر کردی گئی ہے، جو اس طرح تھی کہ اگر وہ منہ پھیر لیں تو وہ کافر ہیں اور اللہ ایسے کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ ”ُ الْكٰفِرِيْنَ“ میں الف لام عہد کا ہونے کی وجہ سے ترجمہ ”ایسے کافروں“ کیا گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ”َالرَّسُوْلَ“ یعنی محمد ﷺ کی اطاعت کا مستقل حیثیت سے حکم دیا گیا ہے اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد ”َالرَّسُوْلَ“ کی اطاعت سنت کی پیروی ہی سے ہوسکتی ہے۔ بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر کہہ دیتے ہیں کہ حدیث وہی حجت ہوگی جو قرآن کے مطابق ہو، حالانکہ قرآن نے متعدد مواقع پر حدیث کو مستقل دلیل اور شریعت کے ماخذ کی حیثیت دی ہے، لہٰذا قانون کا ماخذ قرآن و حدیث دونوں قرار پائیں گے۔ حدیث میں قرآن سے زائد حکم تو ہوسکتے ہیں مگر کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے، اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے تو یہ اس کی عقل و فہم کا قصور ہے، یا اس کی نیت کا فتور۔ مزید دیکھیے سورة نجم (4)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے ہو اور اس کے پاس میرے حکم میں سے کوئی حکم آئے، ان چیزوں میں سے جن کا میں نے حکم دیا ہے، یا میں نے منع کیا تو وہ کہے، ہم نہیں جانتے، ہم اللہ کی کتاب میں جو پائیں گے اسی کی پیروی کریں گے۔“ [ أبو داوٗد، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ : 4605، عن أبی الدرداء ]
Top