Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 32
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ١ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَطِيْعُوا : تم اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں دوست رکھتا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
آپ کہہ دیجئے تم اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو پھر اگر وہ لوگ روگردانی کریں تو یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ ایسے منکروں کو پسند نہیں کرتا2
2۔ اے پیغمبر ! آپ ان سے یہ بھی فرما دیجئے کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو پھر اگر یہ لوگ اس سے اعراض کریں اور روگردانی کے مرتکب ہوں تو یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا اور ایسے منکروں کو پسند نہیں فرماتا ۔ ( تیسیر) حدیث میں آتا ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی ۔ مگر جس نے انکار کیا ، لوگوں نے دریافت کیا وہ انکار کرنے والے کون لوگ ہیں ۔ آپ نے فرمایا جس نے میرا کہامانا اور میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا ۔ دوسری روایت میں ہے جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۔۔۔۔ مذکورہ بالا دو آیتوں میں بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے اصول اور ہدایت کی ایسی راہ تجویز کی ہے جس کو اختیار کرنا ہی انسان کی دائمی نجات کا سبب ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کا معاملہ ایسا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات کا اقرار کرتا ہے وہ ضرور کسی نہ کسی درجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا مدعی ہوتا ہے حتیٰ کہ کافر بلکہ مشرک بھی اس امر کے مدعی ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرنے والے ہیں اور اسی وجہ سے حضرت حق نے جہاں مختلف طریقے اپنے عذاب کے بیان کئے ہیں ان میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم نافرمانوں سے کلام نہیں کریں گے اور ان کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔ جیسا کہ دوسرے پارے میں گزر چکا ہے اور اس پارے کے آخر میں بھی انشاء اللہ آئے گا اور یہ دھمکی جب ہی موزوں اور مناسب ہوسکتی ہے جب کہ کافر بھی یہ خیال رکھتا ہو کہ خدا تعالیٰ میرا محبوب ہے میں نے اس محبت کی ہے اور قیامت میں وہ مجھ سے اچھا برتائو کرے گا ۔ 1۔ ہم دوسرے پارے میں اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں چونکہ اس خیال میں نہ صرف اہل کتاب مبتلا ہیں بلکہ جس کافر اور مشرک سے بات کیجئے وہ اس خیال میں مبتلا ہوگا اس لئے اس محبت کے سلسلے میں ایک ایسا پائیدار اور مضبوط اصول بیان کیا گیا جس نے کھرے اور کھوٹے کو بالکل الگ الگ کردیا ۔ 2۔ محبت کے معنی کچھ بھی ہوں خواہ وہ ذاتی ہو یا صفاتی ہو اور بندے کی محبت کے معنی اوہوں اور خدا کی محبت کے معنی اور ہوں بہر حال محبوب کی محبت کا وہی طریقہ صحیح ہوسکتا ہے جو محبوب کو پسند ہو ورنہ خواہ کتنی ہی محبت ہو جب محبوب ہی کو پسند نہہو تو بےکار ہے ۔ ایسی ناپسندیدہ محبت اور عداوت میں کوئی فرق نہیں ۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ محبت کو معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہے ۔ سوائے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے اور کسی کو وہ طریقہ معلوم ہوسکتا ہے ۔ اس لئے اپنے رسول کو بتلایا کہ اے پیغمبر ! جو آپ کی پیروی کرے اور آپ کے قدم بہ قدم چلے وہی ہم سے صحیح محبت کرنے والا ہے اور اسی کو یہ توقع رکھنیچاہئے کہ ہم اس سے محبت کریں گے اس لئے کہ جیسی کوئی بندہ ہماری طرف پیش قدمی کرے گا ویسا ہی جواب ہماری طرف سے بھی ہوگا ، کوئی ہمارا ذکر کرتا ہے تو ہم اس کا ذکر کرتے ہیں ۔ کوئی ہم سے غفلت اختیار کرتا ہے تو ہم بھی اس سے ویسا ہی برتائو کرتے ہیں اور جو ہم سے محبت کرتا ہے۔ تو ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، لیکن شرط یہ ہے کہ محبت وہی ہو جو ہماری نظر میں محبت ہو اور ہم اسی کی محبت کو قابل التفات اور قابل توجہ سمجھتے ہیں جو ہمارے پیغمبر کی اتباع اور پیروی کرتا ہے۔ 3۔ یہی حالت اطاعت کی ہے کہ پیغمبر کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ ذکر فرمایا تا کہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ رسول اللہ ﷺ کی صحیح اطاعت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ رسول کو اللہ تعالیٰ نے ہی مطاع قرار دیا ہے اور جو ان کے مطاع کی اطاعت بجا لاتا ہے وہ در حقیقت خدا ہی کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ 4۔ آخر میں کافروں کی محبت کا انکار فرمایا کہ جو ہمارے رسول کی اطاعت نہیں کرتا یا ہمارے رسول کی رسالت کو نہیں مانتا وہ کافر ہے اور کافر کسی طرح بھی ہم کو محبوب نہیں۔ 5۔ شاید یاد ہوگا کہ ہم نے پہلے پارے میں عرض کیا تھا کہ ایک جگہ تمام باتیں مذکور نہیں ہوتیں ، اگر ایک جگہ کسی چیز کا ذکر نہ آئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چیز قابل تعمیل نہیں ہے جو بات وہاں مذکور نہ تھی اس کا ذکر یہاں موجود ہے۔ بہرحال قرآن کریم میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جن میں نبی کریم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا اور آپ کی اطاعت کرنا ضروری قرار دیا ہے اور جب تک نبی کریم ﷺ کی رسالت پر ایمان لا کر آپ کی اتباع نہ کی جائے اس وقت تک نہ توحید قابل اعتبار ہے اور نہ محبت کا دعویٰ قابل سماعت ہے اس لئے کہ رسول سے بےنیاز ہو کر جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ غیر آئینی اور غیر معتبر ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بندے کی محبت یہی کا شوق سے اللہ کے کام پر اور حکم پر دوڑے ۔ فائدہ :۔ اب آگے سے مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو محبت کے لفظ فرمائے ہیں ۔ سو محبت اللہ کی بندوں پر تو وہی ہے جو سن چکے اور پسند کے لفظ اکثر مقربوں کو فرمائے ہیں ایسے لفظوں سے شبہ نہ کھایا چاہئے۔ ( موضح القرآن) ہم نے اس سورت کی تمہید میں عرض کیا تھا کہ کتب سماویہ میں بعض الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو متشابہات کہتے ہیں ۔ اسی قسم کے بعض الفاظ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بھی انجیل میں فرمائیں ہوں گے یا آدم کی اولاد کو اپنی اولاد فرمایا ہوگا ان الفاظ سے بعض اہل باطل نے اولاد اور بیوی کا عقیدہ بنا لیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معاذ اللہ خدا کا بیٹا اور اپنے کو خدا کا دوست اور اولاد سمجھنے لگے اور اسی فائد عقیدے کو نجران کے عیسائی قرآن کے الفاظ کلمۃ اللہ اور روح اللہ سے ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے حضرت شاہ صاحب (رح) نے اسی کا جواب دیا ہے کہ محبت یا پسندیدگی کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں جو عیسائی لیتے ہیں بلکہ محبت سے مراد انبیاء کی اتباع ہے اور پسندیدگی کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں جو عیسائی لیتے ہیں بلکہ محبت سے مراد انبیاء کی اتباع ہے اور پسندیدگی کے الفاظ عام انبیاء کے متعلق بھی ارشاد ہوئے ہیں ، کچھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ان الفاظ میں تخصیص نہیں ہے۔ ( تسہیل)
Top