Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 19
وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓئِكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا١ؕ اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ١ؕ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَ یُسْئَلُوْنَ
وَجَعَلُوا : اور انہوں نے بنا لیے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتوں کو الَّذِيْنَ : ان کو هُمْ : وہ جو عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ : بندے ہیں رحمن کے اِنَاثًا : عورتیں۔ بیٹیاں ۭاَشَهِدُوْا : کیا وہ گواہ تھے۔ کیا وہ حاضر تھے خَلْقَهُمْ : ان کی ساخت۔ ان کی تخلیق کے وقت سَتُكْتَبُ : ضرور لکھی جائے گی شَهَادَتُهُمْ : ان کی گواہی وَيُسْئَلُوْنَ : اور وہ پوچھے جائیں گے
اور انھوں نے فرشتوں کو، وہ جو رحمان کے بندے ہیں، عورتیں بنادیا، کیا وہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ؟ ان کی گواہی ضرور لکھی جائے گی اور وہ پوچھے جائیں گے۔
(1) وجعلوا الملئکۃ الذین ھم عبدالرحمٰن اناثاً : فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے میں جو صریح شرک ہے اور عبودیت اور ولدیت کسی صورت جمع نہیں ہوسکتیں۔ دوسرا ظلم یہ کہ فرشتے جو تذکیر و تانیث سے بلندو برتر ہیں اور جن کی پیدائشی ہی انسانوں سے مختلف ہے ، انھیں اتنا گرایا کہ ان کے لئے برتر جنس مرد کے بجائے کمزور جنس عورت ہونا تجویز کیا۔ جھوٹے اور بہتان باز لوگوں کا جھوٹ ایسے ہی تناقص سے ظاہر ہوا کرتا ہے۔ (2) اشھدوا خلقھم : اس کے دو معانی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا، کیا اس وقت یہ لوگ حاضر تھے کہ انھیں ان کا مونث ہونا معلوم ہوگیا۔ دوسرا یہ کہ کیا انھوں نے ان کے جسم کی ساخت کو دیکھا ہے کہ انھیں عورت قرار دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سے کوئی بات بھی نہیں تو پھر ان کے پاس اس دعویٰ کی کیا دلیل ہے ؟ (3) ستکتب شھادتھم ویسئلون : یعنی یہ جو فرشتوں کے عورت ذات ہونے کی جھوٹی شہادت دے رہے ہیں اسے ان کے نامہ اعمال میں لکھ لیا جائے گا اور قیامت کے دن ان سے ان کی جھوٹی شہادت کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ (4) شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :”یہ جو فرمایا کہ بندے رحمان کے ہیں یعنی بیٹیاں نہیں اور معلوم ہوا کہ فرشتے اگرچہ نہ مرد نہ عورت مگر ان کے لئے الفاظ مردوں والے بولنے چاہئیں۔“ (موضح)
Top