Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 19
وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓئِكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا١ؕ اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ١ؕ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَ یُسْئَلُوْنَ
وَجَعَلُوا : اور انہوں نے بنا لیے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتوں کو الَّذِيْنَ : ان کو هُمْ : وہ جو عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ : بندے ہیں رحمن کے اِنَاثًا : عورتیں۔ بیٹیاں ۭاَشَهِدُوْا : کیا وہ گواہ تھے۔ کیا وہ حاضر تھے خَلْقَهُمْ : ان کی ساخت۔ ان کی تخلیق کے وقت سَتُكْتَبُ : ضرور لکھی جائے گی شَهَادَتُهُمْ : ان کی گواہی وَيُسْئَلُوْنَ : اور وہ پوچھے جائیں گے
اور انہوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندے ہیں (خدا کی) بیٹیاں مقرر کیا، کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ؟ عنقریب ان کی شہادت لکھ لی جائے گی اور ان سے باز پرس کی جائے گی
آیت 19: وَجَعَلُوا الْمَلٰٓپکَۃَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا (اور انہوں نے فرشتوں کو جو کہ رحمان کے بندے ہیں۔ عورت قرار دے رکھا ہے) یعنی انہوں نے ان کا نام تجویز کیا اور کہا کہ وہ عورتیں ہیں۔ قراءت : مکی ٗ مدنی و شامی نے عند الرحمان پڑھا۔ یعنی عندیت سے مرتبہ و مقام مراد ہے نہ کہ منزل و مکان والی۔ اور العباد جمع عبد کی ہے۔ اور یہ جھگڑالو لوگوں کے خلاف مضبوط دلیل ہے۔ اس لئے کہ غلامی اور خود رائی میں تضاد ہے۔ اَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ (کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے) یہ ان سے تہکم کیا گیا ہے۔ یعنی وہ یہ بات ایسے ہی کہہ رہے ہیں۔ ان کی بات میں کوئی علمی وزن نہیں پس اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کے جاننے کی طرف مجبور نہیں کیا۔ اور نہ کسی استدلال سے انہوں نے اس کو معلوم کیا ہے۔ اور نہ ہی اسے کسی ایسی خبر سے معلوم کیا ہے جو علم کو لازم کر دے۔ اور نہ ہی انہوں نے ان کی تخلیق کا مشاہدہ کیا ہے کہ یہ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر خبر دے رہے ہیں۔ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ (ان کا یہ دعویٰ لکھ لیا جاتا ہے) جو انہوں نے ملائکہ کے متعلق ان کے مؤنث ہونے کے بارے میں کیا ہے۔ وَیُسْئَلُوْنَ (اور ان سے باز پرس کی جائے گی) اس کے متعلق یہ وعید ہے۔
Top