Dure-Mansoor - Az-Zukhruf : 19
وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓئِكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا١ؕ اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ١ؕ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَ یُسْئَلُوْنَ
وَجَعَلُوا : اور انہوں نے بنا لیے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتوں کو الَّذِيْنَ : ان کو هُمْ : وہ جو عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ : بندے ہیں رحمن کے اِنَاثًا : عورتیں۔ بیٹیاں ۭاَشَهِدُوْا : کیا وہ گواہ تھے۔ کیا وہ حاضر تھے خَلْقَهُمْ : ان کی ساخت۔ ان کی تخلیق کے وقت سَتُكْتَبُ : ضرور لکھی جائے گی شَهَادَتُهُمْ : ان کی گواہی وَيُسْئَلُوْنَ : اور وہ پوچھے جائیں گے
اور ان لوگوں نے فرشتوں کو عورتیں قرار دے دیا جو اللہ کے بندے ہیں کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے ان کا یہ دعویٰ لکھ لیا جاتا ہیا وران سے باز پرس ہوگی
1:۔ عبدبن حمید (رح) ابن المنذر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجعلوا الملئکۃ الذین ھم عبد الرحمن اناثا “ (اور انہوں نے فرشتوں کو جو خدا کے بندے ہیں عورتیں قرار دے رکھا ہے) یعنی یہ باتیں کچھ لوگوں نے کہی اور ہم کسی کو نہیں جانتے سوائے یہودیوں کے کہ اللہ عزوجل نے (نعوذ باللہ) جنات سے شادی کی تو اس کی اولاد فرشتے ہیں۔ 2:۔ سعید بن منصور (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وحاکم (رح) (وصححہ) نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ میں اس کو یوں پڑھتا تھا (آیت) ” عبد الرحمن اناثا اشھدوا خلقھم “ میں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا عباد الرحمن ہے میں نے کہا میرے مصحف میں (آیت) ” عند الرحمن “ ہے فرمایا اس کو مٹا دو اور اس کو لکھو ” عبادالرحمن “ الف اور باء کے ساتھ اور فرمایا آج ایک آدمی میرے پاس آیا ہے میں اس بات کو پسند کرتا تھا کہ وہ میرے پاس نہ آتا اس نے کہا آپ یہ آیت کس طرح پڑھتے ہیں (آیت) ” وجعلوا الملئکۃ الذین ھم عبد الرحمن اناثا “ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ لوگ پڑھتے ہیں (آیت) ” الذین ھم عند الرحمن اناثا “ (یہ سن کر) وہ میں خاموش ہوگیا اور میں نے اس سے کہا اپنے گھروالوں کی طرف چلا جا۔ 3:۔ عبد بن حمید (رح) نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” الذین ھم عند الرحمن اناثا “ پڑھا کون کے ساتھ۔ 4:۔ ابوعبید وابن المنذر (رح) نے مروان (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح قرأت کی (آیت) ” وجعلوا الملئکۃ الذین ھم عبد الرحمن اناثا “ اس میں الذین ھم نہیں ہے۔ 5:۔ عبد بن حمید (رح) نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” عبد الرحمن “ کو الف اور یاء کے ساتھ سے روایت کیا کہ انہوں نے ”‘ عبدالرحمن “ کو الف اور یاء کے ساتھ پڑھا (آیت) ” اشھدوا “ اس کو ہمزہ مفتوحہ اور شین کے ساتھ پڑھا (آیت ) ’ ’ ستکتب “ تاء کے رفع کے ساتھ پڑھا “ 6:۔ فریابی (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) اور بیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) وقالوا لوشآء الرحمن ما عبدنہم “ (اور انہوں نے کہا اگر رحمن چاہتے تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے) سے وہ بت مراد ہیں کیونکہ وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت ) ” مالھم بذلک من علم “ (ان کے پاس اس کا کوئی علم نہیں) یعنی بہت کچھ نہیں جانتے (آیت ) ” ان ھم الا یخرصون “ (یہ محض من گھڑت باتیں کرتے ہیں) فرمایا وہ اللہ کی قدرت کو اس پر جانتے ہیں۔ 7:۔ عبد بن حمید (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقالو الوشآء الرحمن ماعبدنھم “ (اور انہوں نے کہا اگر رحمن چاہتے تو ہم ان کی یعنی فرشتوں کی (عبادت نہ کرتے) 8:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ام اتینہم کتبا من قبلہ “ (کیا ہم نے ان کو کتاب دی اس سے پہلے) یعنی اس کتاب سے پہلے اس کو کتاب دی۔ 9:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” بل قالوا انا وجدنآ ابآء نا علی امۃ “ (بلکہ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک دین پر پایا) یعنی دین پر۔ 10:۔ طستی (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” انا وجدنآ ابآء نا علی امۃ “ کے بارے میں بتائیے تو فرمایا کہ اس دین پر (ہم نے آباؤ اجداد کو پایا) جو اس دین سے مختلف ہے جس کی طرف تم ہم کو بلاتے ہو پھر پوچھا کیا عرب کے اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے نابغہ بنی ذبیان کو کہتے ہوئے نہیں سنا۔ جب نعمان بن منذر کے سامنے معذرت کرتے ہوئے کہتا ہے۔ خلفت ولم اترک لنفسک ریبۃ وھل یأتمن ذو امۃ وھو طالع : ترجمہ : میں نے قسم کھائی اور میں نے تیرے نفس کے لئے کوئی شک نہیں چھوڑا اور کیا دیندار آدمی رضا مندی سے گناہ کرسکتا ہے۔ 11:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” بل قالوا انا وجدنآ ابآء نا علی امۃ وانا علی اثرھم مھتدون “ (بلکہ وہ کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے راستہ پر چل رہے ہیں یعنی ہم ان کے افعال کی پیروی کریں گے۔ 12:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” بل قالوا انا وجدنآ ابآء نا علی امۃ وانا علی اثرھم مھتدون “ یعنی ہم ان آباؤ و اجداد کے فعل کی اقتدا کرنے والے ہیں۔ 13:۔ عبد بن حمید (رح) نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ ” الامۃ “ کا لفظ قرآن میں کئی معنی پر ہے (آیت ) ” واذکر بعد امۃ “ (یوسف آیت 5) یہاں امتی دین (یعنی وقت کے معنی میں ہیں۔ (آیت ) ” وجد علیہ امۃ من الناس یسقون “ (القصص آیت 42) اس میں امۃ سے مراد ہے لوگوں کی جماعت (آیت) ” بل قالوا انا وجدنآ ابآء نا علی امۃ “ اس میں امۃ سے مراد ہے دین اور ان سب میں امۃ کا ہمزہ مرفوع ہے۔ اور (آیت ) ” قل اولو جئتکم “ میں ” جئتکم “ الف کے بغیر تاء کے ساتھ ہے۔ 14:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فانتقمنا منھم فانظر کیف کان عاقبۃ المکذبین “ (آخر ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو تکذیب کرنے والوں کا کیسا برا انجام ہوا) یعنی اللہ کی قسم ان کا برا انجام ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑا زمین میں دھنسانے اور غرق کرنے کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا پھر ان کو آگ میں داخل کردیا۔
Top