Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 12
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ : کیا پھر تم جھگڑتے ہو اس سے عَلٰي مَا يَرٰى : اوپر اس کے جو وہ دیکھتا ہے
پھر کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے۔
(1) افتمرونہ :”تم اورن“ ماری یماری مراء و مماراۃ“ (مفاعلہ) سے فعل مضارع معلوم جمع مذکر حاضر ہے، جھگڑا کرنا۔ یہ مشرکین مکہ سے خطاب ہے، جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں بتایا کہ میرے پاس کوئی شیطان نہیں بلکہ جبریل فرشتہ آتا ہے اور میں اسے دیکھتا ہوں، اس کی اصل صورت میں بھی میں نے اسے دیکھا ہے تو انہوں نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا اور جھگڑنے لگے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم اپنے صاحب کو خود صادق و امین تسلیم کرتے ہو، جب وہ تم سے کہتا ہے کہ اس کے پاس جبریل فرشتہ آتا ہے اور وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو تم اس سے جھگڑنے لگتے ہو، آخر تمہاریپ اس اسے جھٹلانے اور اس پر جھگڑا کرنے کی کیا دلیل ہے ؟۔ اذا لم تر الھلال فسلم لاناس راوہ بالابصار ”جب تمہیں چاند نظر نہیں آیا تو ان لوگوں کیب ات مان لو جنہوں نے اسے آنکھوں سے دیکھا ہے۔“ (2) علی مایری : واضح رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ”افتم اور نہ علی ما رای“”پھر کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا“ بلکہ فرمایا :(افتمرونہ علی مایری)”پھر کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے“ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی جس بات کو وہ جھٹلاتے تھے وہ یہ تھی کہ میں جبریل فرشتے کو دیکھتا ہوں جب وہ میرے پاس آتا ہے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ پہلی دفعہ جب جبریل علیہ السام غار حرا میں آپ ﷺ کے پاس ائٓے تو اگرچہ اصل صورت میں نہ تھے، مگر بعد میں جب وہ اپنی اصل صورت میں اس شان سے سامنے آئے کہ زمین سی آسمان تک اور دائیں سے بائیں تک پورا افق ان سے بھرا ہوا تھا تو آپ ﷺ فوراً پہچان گئے کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (6 تا 9) کے آخری فائدہ میں مذکور حدیث۔ اس سے ظاہر ہے کہ جبریل ؑ کے آنے پر آپ ﷺ انہیں پہچان لیتے تھے، خواہ کسی حالت میں آئیں۔
Top