Al-Qurtubi - An-Najm : 12
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ : کیا پھر تم جھگڑتے ہو اس سے عَلٰي مَا يَرٰى : اوپر اس کے جو وہ دیکھتا ہے
کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو
افتمرونہ علی مایری۔ حمزہ اور کسائی نے افتمرونہ تاء کے فتحہ اور الف کے بغیر پڑھا ہے معنی ہے کیا تم انکار کرتے وہ۔ ابوعبید نے اسے ہی پسند کیا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے، لم یم اورہ وانما حجدوہ یہ جملہ کہا جاتا ہے : مراہ حقہ یعنی اس کے حق کا انکار کردیا (5) مریتہ انا، شاعر نے کہا ، لئن ھجرت اخا صدق و مکرمۃ لقد مریت اخاما کان یمریکا تو نے سچے اور عزت والے شخص کو چھوڑ دیا ہے تو تو نے اس بھائی کا انکار کیا ہے جو تیرا انکار نہیں کرتا تھا۔ یعنی تو نے اس کا انکار کیا۔ مبرو نے کہا : مراہ عن حقہ و علی حقہ جب اس کا حق اس سے روک لے اور اس کو اس سے دور کر دے۔ علی، عن کے معنی میں ہے اس کی مثال بنی کعب بن ربیعہ کا قول ہے :۔ ؓ علیک یعنی رضی عنک اعرج اور مجاہد نے پڑھا افتمرونہ تاء مضموم ہے اور الف نہیں یہ امریت سے مشتق ہے یعنی تم شک کرتے ہو۔ باقی قراء نے افتم اور نہ پڑھا ہے یعنی کیا تم جھگڑا کرتے ہو کہ رسول اللہ نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے۔ دونوں معنی ایک دوسرے میں داخل ہیں کیونکہ ان کا مجادلہ انکار کرتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جحود (انکار) تو ان کی جانب سے دائمی تھا یہ تازہ جھگڑا تھا۔ انہوں نے کہا، ہمارے لئے بیت المقدس کی کیفیت بیان کرو اور ہمارے اس قافلے کے بارے میں بتائو جو شام کے راستہ میں ہے۔ جس طرح پہلے بات گزری ہے۔
Top