Taiseer-ul-Quran - An-Najm : 12
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ : کیا پھر تم جھگڑتے ہو اس سے عَلٰي مَا يَرٰى : اوپر اس کے جو وہ دیکھتا ہے
اب کیا تم اس بات میں جھگڑا کرتے ہو جو اس نے آنکھوں 8 سے دیکھا ہے۔
8 اس کے مخاطب قریش مکہ ہیں اور انہیں کہا یہ جارہا ہے کہ تم اپنے رفیق ( محمد ﷺ کو خود سچا اور راست باز انسان تسلیم کرتے ہو۔ اور وہ اپنے ذاتی اور عینی مشاہدہ کی بنا پر تم سے ایک بات کہتا ہے جو اسے دن کی روشنی میں اور عالم بیداری میں پیش آئی۔ پھر تم اس کی بات کا انکار کرتے۔ اور اس سے جھگڑا کرتے ہو تو آخر تمہارے پاس اس کو جھٹلانے اور اس پر جھگڑا کرنے کے لیے کیا دلیل ہے ؟ واضح رہے کہ اس بارے میں صحابہ میں بھی اختلاف تھا کہ آیا آپ ﷺ نے اس وقت جبریل کو دیکھا تھا یا اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا تو اس کے متعلق صحابہ کی اکثریت کا یہ قول ہے کہ آپ ﷺ نے جبریل کو دیکھا تھا۔ لے دے کے ایک سیدنا ابن عباس ؓ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا مگر وہ بھی اس بات کی پابندی لگاتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو ان ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ دل یا دل کی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ 1۔ کیا رسول اللہ نے جبرئیل کو دیکھا تھا یا اللہ کو ؟ مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے پوچھا : امی ! کیا محمد نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا : تیری اس بات پر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ تین باتیں کیا تو سمجھ نہیں سکتا جو شخص تجھ سے وہ بیان کرے وہ جھوٹا ہے۔ جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ محمد نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا اس نے جھوٹ بولا پھر انہوں نے یہ آیت پڑھیـ۔ ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ 103۔ ) 6 ۔ الانعام :103) اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ آپ ﷺ کل کو ہونے والی بات جانتے تھے اس نے بھی جھوٹ بولا۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ (وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34؀ ) 31 ۔ لقمان :34) اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ نبی ﷺ نے وحی سے کچھ چھپا رکھا وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67؀) 5 ۔ المآئدہ :67) بلکہ آپ ﷺ نے جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دو بار دیکھا تھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) 2۔ شعبی کہتے ہیں کہ عرفات میں کعبص کی ابن عباس ؓ سے ملاقات ہوئی اور ان سے کوئی بات پوچھی۔ پھر کعب نے اتنے زور سے اللہ اکبر کہا کہ پہاڑ گونج اٹھے۔ ابن عباس ؓ نے کہا : ہم بنو ہاشم ہیں (یعنی ہم پر اتنا غصہ نہ کیجئے) کعبص کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور کلام کو محمد ﷺ اور موسیٰ (علیہ السلام) میں تقسیم کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دو بار کلام کیا اور محمد ﷺ نے دو بار اللہ کو دیکھا مسروق کہتے ہیں کہ پھر میں نے سیدہ عائشہ ؓ کے پاس جاکر پوچھا کہ : کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ : تم نے ایسی بات کہی جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں نے کہا : ذرا سوچ لیجئے پھر میں نے یہ آیت پڑھی۔ ( لَقَد رَایٰ مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی) سیدہ عائشہ ؓ مجھے کہنے لگیں : تیری عقل کہاں گئی وہ تو جبریل تھے جو شخص تجھے یہ بتائے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا یا کچھ حصہ چھپایا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا یا وہ پانچ باتیں جانتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34؀ ) 31 ۔ لقمان :34) میں بتائیں۔ اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ بلکہ آپ ﷺ نے جبریل کو اس کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا۔ ایک دفعہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک دفعہ (مکہ کے محلہ) جیاد میں، اس کے چھ سو پر تھے اور اس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) سیدنا ابن عباس ؓ نے یہ آیت پڑھی ( مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11 ؀) 53 ۔ النجم :11) اور کہا کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل (کی آنکھ) سے دیکھا تھا۔ (حوالہ ایضاً ) 3۔ سیدنا ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا : کیا آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے جواب دیا : وہ تو نور ہے میں اسے کہاں سے دیکھ سکتا ہوں (حوالہ ایضاً ) اور میرے خیال کے مطابق سیدنا ابن عباس ؓ کی اس پابندی کے بعد وجہ اختلاف از خود ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ قرآن میں جس بات کی صراحت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ اور عالم آخرت میں اہل جنت کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صراحت کے ساتھ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔
Top