Al-Quran-al-Kareem - Ar-Rahmaan : 29
یَسْئَلُهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍۚ
يَسْئَلُهٗ : مانگتے ہیں اس سے مَنْ : جو بھی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں كُلَّ يَوْمٍ : ہر روز هُوَ فِيْ شَاْنٍ : وہ نئی شان میں ہے
اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔
1۔ یَسْئَلُـہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط : یہ ہر چیز کے فانی ہونے اور اللہ تعالیٰ کے باقی ہونے کی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ باقی ہے، کیونکہ وہ غنی ہے ، اپنے وجود یا بقایا کسی بھی چیز میں کسی دوسرے کا محتاج نہیں ، مگر اس کے سوا جو بھی ہے خواہ آسمان ہوں یا زمین یا جو ان دونوں میں ہے ، سب اپنے وجود ، اپنی بقاء اور اپنی ہر ضرورت کے لیے ہر لمحے اس کے محتاج ہیں۔ اپنی ہر ضرورت اسی سے مانگ رہے ہیں ، کوئی زبان ِ قال سے مانگ رہا ہے ، کوئی زبان حال سے اور کوئی دونوں سے۔ جس کی زندگی کا ہر لمحہ مانگنے پر موقوف ہے وہ کیا خاک باقی رہے گا۔ 2۔ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ :”کل یوم“ سے مراد ہر وقت ہے۔”شان“ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے ، یعنی وہ ہر لمحے ایک نئی سے نئی شان میں ہے ، کسی کو پیدا ک رہا ہے اور کسی کو مار رہا ہے ، کسی کو اٹھا رہا ہے اور کسی کو گرا رہا ہے ، کسی کو بیمار کر رہا ہے اور کسی کو شفاء بخش رہا ہے۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ید اللہ ملاٰی لا تغیضھا نفقۃ سحاء اللیل والنھار وقال ارایتم ما انفق منذ خلق السماء والارض فانہ لم یغض ما فی یدہ و کان عرشہ علی الماء وبیدہ المیزان یخفض و یرفع) (بخاری ، التفسیر ، سورة ھود، باب قولہ :(وکان عرشہ علی المائ): 4684)”اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے ، کسی قسم کا خرچ کرنا اس میں کمی نہیں لاتا ، رات دن بےحساب برسنے والا ہے۔ تم نے دیکھا اس نے جب سے آسمان و زمین پیدا کیے ، کیا کچھ خرچ کیا ، تو اس (خرچ کرنے) نے اس میں کوئی کمی نہیں کی جو اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں ترازو ہے۔ نیچے کرتا ہے اور اونچا کرتا ہے۔“ اور ابو الدرداء ؓ نے نبی کریم ﷺ سے ”کلی یوم ھو فی شان“ کی تفسیر کے بیان میں روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :(من شانہ ان یغفر ذنباو یفرج کر با ویرفع قوما و یخفض آخرین) (ابن ماجہ ، المقدمۃ ، باب فیما انکرت الجھمیۃ : 202، وقال الالبانی حسن) ”اس کی شان سے ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی گناہ بخش رہا ہے ، کوئی نہ کوئی مصیبت دور کر رہا ہے اور کسی اقوام کو اونچا کر رہا ہے اور کسی کو نیچا کر رہا ہے“۔ 3۔ اس میں یہود کا بھی رد ہے جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں زمین و آسمان پیدا فرمائے اور ہفتہ کے دن آرام کیا۔ فرمایا وہ ہر دن ہی نئی شان میں سے ہے ، اسے نہ تھکاوٹ ہوتی ہے نہ آرام کی ضرورت ہے۔ 4۔ یونان کے فلسفی آسمانی ہدایت سے محروم تھے ، انہوں نے اللہ تعالیٰ کا وجود ماننے کے باوجود اپنے دیوتاؤں کی گاجائش نکالنے کے لیے ایک قاعدہ وضع کیا ، جو یہ تھا کہ ”ہر محل حوارث حادث ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ قدیم ہے ، ہمیشہ سے ہے ، اس لیے اس پر حوادث نہیں آسکتے۔“ افسوس ! بعض مسلمان متکلمین نے بھی ان کا یہ قاعدہ تسلیم کرلیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کردیا۔ بعض نے تاویل کی اور ایسی تاویل کی جو درحقیقت بدترین تحریف ہے۔ مثلاً اللہ کی صفت کلام ہے۔ جیسا کہ فرمایا :”وَکَلَّمَ اللہ ُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا“ (النسائ : 164)”اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا ، خود کلام کرنا“۔ اور فرمایا :(وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللہ ِ) (التوبۃ : 6) ”اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے ، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے“۔ اور فرمایا :(اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ) (یٰسین : 82)”اس کا حکم تو ، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے ، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ”ہوجا“ تو وہ ہوجاتی ہے۔“ یہ ساری کائنات اس کہ کلمہ کن سے وجود میں آئی ہے۔ ظاہر ہے کلام کا ہر لفظ حادث ہے ، پہلے موجود نہیں ہوتا ، پھر وجود میں آتا ہے، اس لیے متکلمین نے اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے ، سنتا ہے ، اترتا ہے ، بلند ہوتا ہے ، خوش ہوتا ہے ، ناراض ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ صفات اور اس جیسی دوسری صفات اللہ تعالیٰ میں ہمیشہ سے ہیں ، ان کی انواع قدیم ہیں مگر افراد حادث ہیں ، ان کا اظہار مختلف اوقات میں ہوتا رہتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ جب چاہے کلام کرتا ہے ، نیچے اترتا ہے ، بلند ہوتا ہے ، پیدا کرتا ہے ، مارتا ہے ، ہر ایک کو ہر لمحے روزی بخشتا ہے ، ہر لمحے ہر ایک کو دیکھتا ہے، اس کی سنتا ہے ، اس کی ضرورت پوری کرتا ہے ، مگر یونانی فلسفیوں کی تقلید میں متکلمین نے اللہ تعالیٰ کو سننے ، یکھنے ، بولنے خوش ہونے ، ناراض ہونے ، غرض اس طرح کی تمام صفات سے عاری قرار دیا۔ اس مقام بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کے سوال کو سنتا ہے اور ہر لمحے نئی سے نئی شان میں ہے ؟ اب ہم یونان کے کافر فلاسفر اور ان کے مقلد بعض متکلمین کی بات مانیں کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی نئی شان وارد نہیں ہوسکتی یا اللہ تعالیٰ کی بات پر ایمان رکھیں کہ وہ ہر لمحے ایک نئی سے نئی شان میں ہے ؟ ظاہر ہے جس کے دل میں ایمان ہے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی بات مانے گا ، خواہ کوئی فلسفی اسے مانے یا نہ مانے۔
Top