Tafseer-e-Madani - Ar-Rahmaan : 29
یَسْئَلُهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍۚ
يَسْئَلُهٗ : مانگتے ہیں اس سے مَنْ : جو بھی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں كُلَّ يَوْمٍ : ہر روز هُوَ فِيْ شَاْنٍ : وہ نئی شان میں ہے
اسی سے مانگتے ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ ہر آن ایک نئی شان میں ہے
[ 22] سب کا داتا اور سب کا رازق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا اور اسلوب حصر و قصر میں ارشاد فرمایا گیا کہ اسی سے مانگتے ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ کہ داتا سب کا وہی اور صرف وہی ایک ہے، باقی ہر کوئی منگتا اور اسی کا محتاج ہے، اور پھر یہ مانگنا بھی عام ہے کہ زبان حال سے ہو یا زبان قال سے، اور مانگی جانے والی چیز بھی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، اسی لیے یہاں پر یسئل فعل کا مفعولذکر نہیں فرمایا گیا جس سے عموم و شمول کا فائدہ حاصل ہوا ہے، اور یہ ہر چیز اور ہر ضرورت کو شامل ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔ { واتکم من کل ما سالتموہ ط وان تعد وانعمت اللّٰہ لا تحصوھا ط ان الانسان لظلوم کفار۔ }[ ابراہیم : 34 پ 13] یعنی اس وحدہٗ لاشریک نے تم لوگوں کو وہ سب کچھ دیا جو تم نے اس سے مانگا، سو داتا اور مرجع سب کا وہی وحدہ لاشریک ہے جس کو جو بھی کچھ ملتا ہے اسی کے دئیے سے ملتا ہے، سو اس کے اور کو مولا اور مرجع سمجھ کر یا اس کو داتا اور حاجت روا و مشکل کشا جان کر اس سے مانگنا اور اس کے حضور اپنی دعاء والتجاء پیش کرنا محض حماقت اور سفاہت ہے، اسباب کے درجے میں ایسا کرنے کی اگرچہ شرع متین نے اجازت دی ہے، لیکن مافوق الاسباب ایسا کرنا تو نرا شرک ہے، جو کہ ظلم عظیم ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو اس وحدہ لاشریک کے سوا نہ کوئی کسی کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ چھین سکتا ہے۔ سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہء قدرت و اختیار میں ہے۔ فلہ الحمد ولہ الشکر بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ [ 23] ہر آن اس کی ایک نئی شان۔ سبحانہ وتعالیٰ : یعنی یوم یہاں پر اپنے معروف معنوں میں نہیں، بلکہ مطلق وقت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جو کہ عربی زبان کا ایک معروف اسلوب ہے [ صفوۃ، محاسن وغیرہ ] اور اس کو یوم سے اس لئے تعبیر فرمایا گیا ہے کہ تاکہ یہود بےبہبود کے اس زعم باطل کا رد ہو سکے، کہ ہفتے کا دن اللہ تعالیٰ کے آرام کا دن ہے [ روح وغیرہ ] سو ان کا یہ زعم باطل ہے، اور یہ دراصل اللہ پاک کو مخلوق پر قیاس کرنے کی بنیادی غلطی اور گمراہی کا نتیجہ ہے، جس میں یہود بےبہبود اور دوسری گمراہ قومیں ہمیشہ مبتلا رہی ہیں، اور آج بھی ہیں، والعیاذ باللّٰہ سو اللہ تعالیٰ ایسے تمام عوارض سے پاک اور وراء الورا ہے، اور ہر لحظہ اس کی ایک نئی شان ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور اس کائنات میں ہر لمحہ و لحظہ میں جو بیشمار انقلابات اور تغیرات رونما ہوتے ہیں وہ سب اسی کی قدرت و عنایت کا نتیجہ وثمرہ ہیں۔ پس کوئی اس مغالطے میں نہ رہے کہ اس خالق کل نے دنیا کو پیدا کرنے کے بعد اس کا انتظام و انصرام فرضی دیویوں، دیوتاؤں اور خود ساختہ ہستیوں اور بناوٹی سرکاروں کے حوالے کردیا ہے، اور وہ خود الگ کسی گوشہ تنہائی میں بیٹھ گیا ہے، سو ایسے ہر تصور سے وہ پاک ہے سبحانہ وتعالیٰ ، بلکہ اس کی ساری کائنات میں ہر لمحہ و لحظہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے اسی کے حکم و ارشاد سے ہو رہا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو اس کائنات کا خالق ومالک بھی وہی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی۔ فعلیہ نتوکل وبہ نستعین فی کل ان وحین، فلہ الحمد ولہ الشکر بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ،
Top