Al-Quran-al-Kareem - Al-Hadid : 2
لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۚ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ : اسی کے لیے ہے بادشاہت آسمانوں کی وَالْاَرْضِ ۚ : اور زمین کی يُحْيٖ : وہ زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ ۚ : اور موت دیتا ہے وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہر چیز پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، وہ زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
1۔ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج :”لہٗ“ خبر کو پہلے لانے سے حصر پیدا ہوگیا ، یعنی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے ، کسی اور کی نہیں۔ دوسرے کسی کے پاس بادشاہی اگر ہے تو سارے آسمانوں اور زمین کی نہیں بلکہ زمین کے کسی چھوٹے سے قطعے کی تھوڑے سے وقت کے لیے اور وہ بھی اسی کی عطاء کردہ اور ہر لمحے دوسروں کی محتاج۔ مزید دیکھئے سورة ٔ ملک کی پہلی آیت کی تفسیر۔ پھر کائنات کے سارے اختیارات کے مالک کے مقابلے میں کسی اور کی عبادت کا کیا جواز ہے ؟ 2۔ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ج : اگرچہ یہ دونوں صفات ”لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج“ کے مضمون میں شامل ہیں ، مگر انہیں خاص طور پر الگ اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ دونوں کام زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے ان تصرفات میں سے ہیں جن کی حقیقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور مخلوق میں سے کوئی دعویٰ بھی نہیں کرسکتا کہ ان میں اس کا کوئی دخل ہے اور اس میں قیامت کے امکان کی بھی دلیل ہے جس کا مشرک انکار کرتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے خداؤں کے باطل ہونے کی طرف اشارہ بھی ہے ، یعنی ”لا یملکون موتا ولا حیوۃً ولا نشور ًا“ کہ باطل معبود تو نہ کسی موت کے مالک ہیں اور نہ زندگی کے اور نہ اٹھائے جانے کے۔ دیکھئے سورة ٔ فرقان (3) 3۔ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ اس کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورة ٔ ملک کی پہلی آیت کی تفسیر۔
Top