Tafseer-al-Kitaab - Aal-i-Imraan : 111
قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ اَرْسِلْ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَۙ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَرْجِهْ : روک لے وَاَخَاهُ : اور اس کا بھائی وَاَرْسِلْ : اور بھیج فِي الْمَدَآئِنِ : شہروں میں حٰشِرِيْنَ : اکٹھا کرنیوالے (نقیب)
انھوں نے کہا اسے اور اس کے بھائی کو مؤخر رکھ اور شہروں میں جمع کرنے والے بھیج دے۔
قَالُوْٓا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ۔۔ : ”اَرْجِهْ“ یہ ”أَرْجَأَ یُرْجِئُ إِرْجَاءً“ سے امر حاضر کا صیغہ ہے، جو اصل میں ”اَرْجِءْہُ“ تھا، جس کا معنی ”اَخِّرْہُ“ ہے، یعنی ان کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہ کیا جائے اور ان کا معاملہ چند روز تک ملتوی رکھا جائے، اس اثنا میں ملک بھر کے شہروں سے تمام ماہر فن جادوگر جمع کیے جائیں۔ چناچہ فرعون نے ایسا ہی کیا (دیکھیے شعراء : 38) اور موسیٰ ؑ سے تقاضا کرکے مقابلے کا دن یوم الزینہ اور دن چڑھے کا وقت طے کرلیا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (59) یہاں یہ سب محذوف ہے۔
Top