Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 111
قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ اَرْسِلْ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَۙ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَرْجِهْ : روک لے وَاَخَاهُ : اور اس کا بھائی وَاَرْسِلْ : اور بھیج فِي الْمَدَآئِنِ : شہروں میں حٰشِرِيْنَ : اکٹھا کرنیوالے (نقیب)
بولے ابھی اس کو اور اس کے بھائی کو ٹالو اور تمام شہروں میں ہر کارے بھیجو
قَالُوْٓا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ۔ یہ وہ مشورہ ہے جو پورے اتفاق رائے کے ساتھ درباریوں کی طرف سے فرعون کو پیش کیا گیا۔ وہ یہ کہ موسیٰ اور ہارون کے معاملے میں کوئی عاجلانہ کاروائی مناسب نہیں ہوگی۔ تقاضائے مصلحت یہ ہے کہ ابھی ان کو ٹالیے اور مملکت کے تمام حصوں میں ہر کارے بھیج کر ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو جمع کیجئے تاکہ وہ کسی پبلک اجتماع میں اپنے فن سے موسیٰ اور ہارون کو ایسی شکست دیں کہ ان کی ہوا اکھڑ جائے۔ اگر عام جاوگروں سے ان کا مقابلہ کدرایا گیا تو اندیشہ ہے کہ وہ اس مقابلہ میں شکست کھا جائیں گے اور الٹے ہماری ہوا خیزی ہوگی۔ اَرْجِہْ اصل میں اَرْجِئْہ ہے۔ ارجاء کے معنی ٹالنے، کسی معاملے کو کسی دوسرے وقت پر محول کرنے، کسی کو منتظر بنانے کے ہیں۔ قرآن میں اس کے مختلف صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ یہاں یہ ہمزہ کے حذف اور ہ کے سکون کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ تلفظ کا یہ اسلوب اہل عرب کے قاعدے کے مطابق ہے۔ بعض مرتبہ وہ لفظ کو ہلکا کرنے کے لیے اس طرح کا تصرف کردیتے ہیں۔ صاحب لسان نے اس کی بعض واضح مثالیں نقل کی ہیں۔
Top