Al-Quran-al-Kareem - Al-An'aam : 30
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اِلٰي : طرف مَدْيَنَ : مدین اَخَاهُمْ : ان کے بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : نہیں تمہارا مِّنْ : سے اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق پہنچ چکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : ایک دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَوْفُوا : پس پورا کرو الْكَيْلَ : ناپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی اشیا وَلَا تُفْسِدُوْا : اور فساد نہ مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) ، اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی۔ پس ماپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو۔
وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۭ : مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور آج بھی اس علاقے میں ایک جگہ اسی نام سے مشہور ہے۔ شعیب ؑ کا نسب نامہ امام نووی ؓ نے یوں بیان کیا ہے، شعیب بن میکائیل بن یشجر بن مدین بن ابراہیم۔ (المنار) مگر اس کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ شعیب ؑ کو اہل مدین کا بھائی قرار دیا، کیونکہ وہ اس قوم سے تھے اور ان کا قبیلہ بہت زبردست تھا جس کی وجہ سے ان کے کفار آپ کو نقصان پہنچانے سے ڈرتے تھے، اس لیے انھوں نے کہا تھا : (ۚ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ ۡ) [ ہود : 91 ] ”اور اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم ضرور تمہیں سنگسار کردیتے۔“ شعیب ؑ ہی کو اصحاب الایکہ کی طرف بھیجا گیا، مگر وہاں انھیں ان کا بھائی نہیں کہا گیا، فرمایا : (كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ , اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ) [ الشعراء : 176، 177 ] ”ایکہ والوں نے رسولوں کو جھٹلایا، جب ان سے شعیب نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟“ اب بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی قوم کے نام ہیں اور ان پر دو قسم کے عذاب آئے، ایک ”عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۭ“ (شعراء : 189) اور ایک ”الرَّجْفَةُ“ (اعراف : 91) اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ دو الگ الگ قومیں تھیں، اصحاب مدین پر ”الرَّجْفَةُ“ (زلزلے) کا عذاب آیا اور اصحاب ایکہ پر ”یوم الظلۃ“ کا عذاب آیا۔ (واللہ اعلم !) ۭقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ۔۔ : مدین والوں کا سب سے بڑا جرم اللہ کے ساتھ شرک تھا، شعیب ؑ نے سب سے پہلے انھیں اس سے باز رہنے کی تاکید فرمائی اور ہر پیغمبر کی پہلی دعوت یہی تھی : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) [ الأنبیاء : 25 ] ”اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔“ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ : یعنی میرے سچا ہونے کی واضح دلیل تم دیکھ چکے ہو، لہٰذا ضروری ہے کہ جو بات میں کہتا ہوں اسے صحیح سمجھو۔ رازی نے فرمایا کہ یہاں ”بَيِّنَةٌ“ (واضح دلیل) سے مراد معجزہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ہر نبی کو کوئی نہ کوئی ایسا معجزہ دے کر بھیجا گیا جسے دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور مجھے جو (معجزہ) دیا گیا وہ وحی (قرآن و سنت) ہے جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف فرمائی اور مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے۔“ [ بخاری، فضائل القرآن، باب کیف نزل الوحی و أول ما أنزل : 4981۔ مسلم : 152، عن أبی ہریرۃ ؓ ] مگر شعیب ؑ کے معجزے کا قرآن کریم میں ذکر نہیں۔ زمخشری لکھتے ہیں کہ موسیٰ ؑ کے پاس جو عصا یعنی لاٹھی تھی وہ شعیب ؑ ہی نے انھیں عطا فرمائی تھی اور وہ دراصل شعیب ؑ ہی کا معجزہ تھا۔ (کشاف) مگر موسیٰ ؑ مدین کے جس بزرگ کے پاس ٹھہرے اور ان کے داماد بنے تھے، ان کے شعیب ؑ ہونے کی کوئی دلیل نہیں، نہ ہی مدین کے کسی بزرگ کا ذکر کرنے پر بلا دلیل یہ سمجھ لینا درست ہے کہ وہ لازماً اللہ کے رسول شعیب ؑ ہی تھے۔ قرآن مجید میں نہ ہر پیغمبر کا نام مذکور ہے نہ ہر نبی کا معجزہ۔ اتنا ہی کافی ہے کہ یقیناً شعیب ؑ کوئی معجزہ لے کر آئے تھے، زیادہ کریدنے سے کچھ حاصل نہیں۔ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں شرک کے ساتھ دوسری خرابی ماپ تول میں لیتے وقت زیادتی اور دیتے وقت کمی تھی، اگر کوئی ان کی اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا تو مل کر اس کی بےعزتی کرتے اور اسے مارتے پیٹتے، جیسا کہ آج کل بھی عموماً ریڑھیوں والے ایسے موقع پر گاہک کے خلاف ایکا کرلیتے ہیں، اس لیے شعیب ؑ نے انھیں سمجھایا کہ ماپ تول ہر حال میں پورا کرو اور انبیاء اور صالحین کی محنت سے دنیا میں جو اصلاح ہوئی ہے اس کے بعد شرک اور بددیانتی اور ان کے ساتھ پیدا ہونے والی برائیوں کے ذریعے سے اس میں فساد مت پھیلاؤ، کیونکہ ان دونوں سے اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی تلف ہوتے ہیں اور لوگوں کے بھی۔ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : یعنی اگر تم مجھ پر ایمان لا کر شرک اور بددیانتی ترک کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، کیونکہ کافر رہتے ہوئے یہ چیزیں چھوڑ بھی دو تو قیامت کے دن اس کا کچھ فائدہ نہیں۔
Top