Dure-Mansoor - Az-Zukhruf : 66
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلٰى رَبِّهِمْ١ؕ قَالَ اَلَیْسَ هٰذَا بِالْحَقِّ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَ رَبِّنَا١ؕ قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب وہ کھڑے کئے جائیں گے عَلٰي : پر (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب قَالَ : وہ فرمائے گا اَلَيْسَ : کیا نہیں هٰذَا : یہ بِالْحَقِّ : سچ قَالُوْا : وہ کہیں گے بَلٰى : ہاں وَرَبِّنَا : قسم ہمارے رب کی قَالَ : وہ فرمائے گا فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس لیے کہ كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور اگر تم دیکھ پاتے اس وقت کو ‘ جب یہ اپنے رب کے حضور کھڑے کئے جائیں گے ‘ وہ ان سے پوچھے گا ! کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے وہ جواب دیں گے ‘ ہاں ! ہمارے رب کی قسم ‘ یہ امر واقعہ ہے۔ (اللہ) فرمائے گا ! پس چکھو عذاب ‘ اپنے کفر کی پاداش میں
ارشاد خداوندی ہے۔ وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ ط قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ ط قَالُوْا بَلٰی وَ رَبِّنَا ط قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ ۔ (الانعام : 30) (اور اگر تم دیکھ پاتے اس وقت کو ‘ جب یہ اپنے رب کے حضور کھڑے کیے جائیں گے ‘ وہ ان سے پوچھے گا ! کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے ؟ وہ جواب دیں گے ‘ ہاں ہمارے رب کی قسم ‘ یہ امر واقعہ ہے۔ (اللہ) فرمائے گا ! پس چکھو عذاب اپنے کفر کی پاداش میں) اس آیت کے پہلے جملے کے الفاظ تو نہایت مختصر ہیں جس کا ترجمہ ہم نے یہ کیا ہے کہ ” اگر تم دیکھ پاتے اس وقت کو ‘ جب یہ اپنے رب کے حضور کھڑے کیے جائیں گے “ لیکن اگر ہم تصور میں کسی طرح اس منظر کو سمیٹ سکیں تو ممکن نہیں ہے کہ ہمارے جسم پر کپکپی نہ چھوٹے۔ غور کیجئے ! بےبس انسانوں کا ایک جم غفیر اپنے گناہوں کا پشتارہ اٹھائے ہوئے اور اپنے جرائم کی فائل لیے نہایت بےبسی کے عالم میں ایک ایسی عدالت میں کھڑا ہوگا ‘ جسکا منصف اعلیٰ ہمہ مقتدر خداوند ذوالجلال ہوگا۔ اگر کسی آدمی کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ جیسی معمولی عدالت میں کھڑے ہونے کا بھی اتفاق ہوا ہو تو اسے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کسی بھی عدالت میں اپنی جزا سزا کا انتظار اور عدالت کے جج کا سامنا کس قدر مشکل کام ہے حالانکہ یہ عدالتیں انسانوں کی عدالتیں ہیں۔ اس میں فیصلہ سنانے والا بھی ایک بےبس انسان ہوتا ہے۔ لیکن جس عدالت میں سامنا خداوند ذوالجلال سے ہوگا ‘ اس میں قطع نظر اس سے کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے ‘ خود پروردگار کے سامنے کھڑا ہونا ہی بجائے خود ایک دل دہلا دینے والی بات ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے ایک جگہ بتلایا ہے کہ جو آدمی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا یہی ہے جس نے نفس کو لگام دے لی اور اپنی خواہشات پر قابو پا لیا اور بالآخر جنت اس کا ٹھکانہ ہوگا اب قیامت کے دن فی الواقع اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا۔ ایک بےبس اور بےکس انسان جو کمزوریوں اور ناتوانیوں کا پتلا ہے ‘ وہ اس منظر کی تاب کیسے لاسکے گا۔ پروردگار اپنی قدرت کاملہ سے شاید اس لیے ان کو زندہ رکھے گا تاکہ یہ جہنم کا عذاب چکھیں ‘ ورنہ انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ ایسی صورت حال میں اپنے آپ کو سنبھال سکے اور دل اس کا پھٹنے سے بچ جائے۔ چناچہ جس وقت انسانوں کا یہ جم غفیر پروردگار کے جلال سے پانی پانی ہو رہا ہوگا کہ اچانک ان سے پوچھا جائے گا بتلائو ! تم دنیا میں جس قیامت کا انکار کرتے رہے ‘ آج اس قیامت کا منظر تمہارے سامنے ہے ‘ اب جواب دو کہ کیا یہ امر واقعہ ہے یا نہیں وہ جواب میں کہیں گے ” بَلٰی وَ رَبِّنَا “ ہاں ! ہمارے رب کی قسم ‘ یہ امر واقعہ ہے۔ جس قیامت کا وہ زندگی بھر انکار کرتے رہے ‘ اب کس آمادگی کے ساتھ وہ اس کا اقرار کریں گے اور ساتھ ہی اپنے رب کی قسم کھائیں گے اور رَبِّنَا کہہ کر اللہ کو یاد کریں گے لیکن یہ آمادگی ‘ یہ تسلیم اور یہ اطاعت وانقیاد بعد از مرگ واویلا سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں ‘ اس لیے کہ آج ان کا قیامت کو تسلیم کرنا اس لیے ہے کہ اس کا انکار کرنے کی گنجائش نہیں ‘ وہ خود قیامت کے حصار میں ہیں ‘ ان کا انجام انھیں دکھائی دے رہا ہے۔ پروردگار کا جلال انھیں سراسیمہ کر رہا ہے ‘ اس لیے اس وقت کا اقرار اور یقین ایک بےقدر و قیمت چیز ہے کیونکہ ایمان دنیا میں انسان کے عقل و شعور کا امتحان ہے۔ دنیا میں ہزاروں ایسے مواقع ہیں ‘ جو انسان کو ایمان سے روکتے بلکہ اس کے خلاف اکساتے ہیں۔ لیکن اللہ اپنے دلائل انفس و آفاق دکھا کر اور اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر انسان کے لیے ایمان کو آسان بھی کرتا ہے اور اس کی دعوت بھی دیتا ہے۔ اس لیے جب تک آدمی دنیا میں ہے ‘ وہ اس امتحان اور آزمائش میں ہے کہ آیا وہ ایمان لاتا ہے یا نہیں۔ لیکن جب وہ موت کی وادی میں داخل ہوجاتا ہے تو ہر چیز اس کے مشاہدے میں آنا شروع ہوجاتی ہے ‘ اب اگر وہ ایمان لانا چاہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ آنکھوں دیکھا ایمان اللہ کے نزدیک ایمان نہیں بلکہ مشاہدہ ہے۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے کہ کسی آدمی کو کسی امتحان کی تیاری کے لیے ایک مدت تک موقع دیا جائے اور جب وہ کمرہ امتحان میں پہنچ جائے ‘ تو وہاں جا کر یہ کہے کہ مجھے اب تک اس بات کا یقین نہیں تھا کہ واقعی امتحان ہوگا ‘ اب مجھے یقین آگیا ہے اس لیے اب مجھے اس کی تیاری کا موقع دیا جائے۔ ظاہر ہے کسی بھی امیدوار کو اس کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ اس لیے یہاں قیامت کے دن یہ لوگ اگرچہ اب قیامت کا اعتراف کریں گے لیکن بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اقرار و ایمان کی قدر فرمائے۔ انھیں جہنم کا مزا چکھنے کا حکم دیں گے۔ جہنم کوئی چکھنے کی چیز نہیں بلکہ یہ تو جسم و جان کے سب سے بڑے ابتلا کا نام ہے۔ لیکن دنیا میں جہنم کا انکار کرنے والوں نے دنیا کو بجائے آخرت کی تیاری کے لیے استعمال کرنے کے صرف دنیا کی نعمتوں کو کھانے پینے کی چیز سمجھا اور ساری زندگی لذت کام و دہن میں گزاری اس لیے ان سے کہا جارہا ہے کہ چونکہ تمہیں لذت ہی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت معلوم ہوتی رہی ہے آج اسی لذت کے حوالے سے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اب جہنم کے عذاب کو بھی چکھ کر دیکھو ‘ تاکہ تمہیں اندازہ ہو کہ اپنے خالق ومالک کے احکام کا انکار کرنا اور حقائق کو تسلیم نہ کرنا کیسے ہولناک نتائج کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ جہنم کے عذاب کی شدت ‘ وسعت اور اس کی گہرائی تو واقعی دل دہلا دینے والی ہے اور کوئی بھی قرآن پاک کا پڑھنے والا یا اسلامی تعلیمات کو جاننے والا اس سے بےبہرہ نہیں ہوسکتا لیکن اگر مزید غور کیا جائے تو جہنم کی سزا کے بارے میں بعض اور ہولناک چیزیں سامنے آتی ہیں ‘ جو پتہ پانی کردینے کے لیے کافی ہیں۔ مثلاً دنیا میں کوئی ایسی سزا نہیں جس کی کیفیت اور کمیت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی نہ ہوتی ہو۔ کسی آدمی کو اگر عمر قید ہوجائے تو ہر دن کے گزرنے سے اس کی قید کی مدت میں ایک دن کی کمی ہوجاتی ہے اور جیسے جیسے دن گزرتے ہیں اس کی مدت قید کم ہوتی جاتی ہے اور قیدی کو یہ امید زندہ رکھتی ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ قید کے دن گزر جائیں گے اور میں آزاد فضا میں سانس لے سکوں گا۔ لیکن جہنم کی سزا عجیب سزا ہے کہ کافروں کو چونکہ ابدی عذاب کی سزا ملے گی ‘ اس لیے کسی دن کے گزرنے سے ان کے عذاب کی مدت میں کمی نہیں ہوگی۔ کیونکہ ان کی سزا لاانتہا ہے ‘ اس لیے ہر گزرنے والا دن ان کی سزا میں اضافہ محسوس کرائے گا ‘ کمی کا احساس نہیں ہوگا۔ اسی طرح دنیا میں شدید سے شدید سزا کی شدت میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی ہوجاتی ہے ‘ جس آدمی کو چکی پیسنے کا حکم ملتا ہے۔ شروع دنوں میں اس کے ہاتھوں میں چھالے پڑتے ہیں ‘ پھر وہ زخموں میں تبدیل ہوتے ہیں ‘ پھر خون بہتا ہے ‘ آخر گٹے بننے لگتے ہیں۔ گٹے بننے کے بعد چکی پیسنے والے کی تکلیف میں کمی ہوجاتی ہے۔ اب نہ اس کو زخم پریشان کرتے ہیں نہ اس کے بازو شل ہوتے ہیں کیونکہ روز کی مشقت نے اس کے اعصاب کو سخت کردیا ہے۔ لیکن جہنم کی سزا عجیب سزا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا ‘ اس کی کیفیت اور شدت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جہنم کی آگ جب جہنمیوں کی کھالوں کو جلا دے گی اور ان کی کھالیں جل کر جھڑ جائیں گی تو اللہ فرماتا ہے ہم ان کو نئی کھالیں پہنا دیں گے۔ نئی کھال پہننے کے بعد ہر جہنمی از سر نو جلنے کی تکلیف محسوس کرے گا چونکہ کسی کو مرنے نہیں دیا جائے گا اس لیے بار بار کھالیں بدلنے سے بار بار ان کی اذیت میں اضافہ ہوگا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جہنم کا عذاب کیسا ہولناک عذاب ہوگا ‘ جس کے بارے میں یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم اپنے کفر کے باعث اب اس عذاب کا مزا چکھو گے جس کا تم مذاق اڑایا کرتے تھے۔ جہنم میں اہل جہنم پر جو گزرے گی ‘ وہ تو ایک دلخراش داستان ہے ہی لیکن ان قیامت کا انکار کرنے والوں کے اپنے احساسات بھی ان کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوں گے۔ ایک آدمی جب محسوس کرتا ہے کہ میں جس مصیبت میں گرفتار ہوں وہ میری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے تو وہ وقت سے پہلے اور عذاب شروع ہونے سے پہلے اپنے ہی پیدا کردہ عذاب کی گرفت میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوگا کہ جب قیامت کا انکار کرنے والوں کو اچانک قیامت سے سابقہ پیش آئے گا تو وہ خود اپنے آپ کو ملامت کریں گے۔ چناچہ ان کے احساس کی کیفیت قرآن کریم نے اگلی آیت میں بیان کی ہے۔
Top