Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 95
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
ثُمَّ : پھر بَدَّلْنَا : ہم نے بدلی مَكَانَ : جگہ السَّيِّئَةِ : برائی الْحَسَنَةَ : بھلائی حَتّٰي : یہاں تک کہ عَفَوْا : وہ بڑھ گئے وَّقَالُوْا : اور کہنے لگے قَدْ مَسَّ : پہنچ چکے اٰبَآءَنَا : ہمارے باپ دادا الضَّرَّآءُ : تکلیف وَالسَّرَّآءُ : اور خوشی فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : بیخبر تھے
پھر ہم نے اس بدحالی کی جگہ خوشحالی بدل کر دے دی، یہاں تک کہ وہ خوب بڑھ گئے اور انھوں نے کہا یہ تکلیف اور خوشی تو ہمارے باپ دادا کو (بھی) پہنچی تھی۔ تو ہم نے انھیں اچانک اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ سوچتے نہ تھے۔
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَان السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ۔۔ : ”عَفَوْا“ یہ ”عَفَا یَعْفُوْ“ سے ماضی معلوم جمع مذکر غائب ہے، معنی ہے ”بڑھ گئے۔“ باب افعال کا معنی ”بڑھانا“ ہے، جیسا کہ فرمایا : (أَعْفُوا اللِّحَی) [ بخاری، اللباس، باب إعفاء اللحی : 5893]”ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ۔“ مگر جب انھوں نے ایسا نہ کیا تو ہم نے بدحالی کی جگہ انھیں خوش حالی دے کر واپس پلٹنے کا موقع دیا، انھیں قحط کے بجائے ارزانی اور بیماری کے بجائے تندرستی عطا فرمائی، آبادی ان کی خوب بڑھ گئی اور مال و دولت کی ریل پیل ہوگئی، تو ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے رب کے رسول پر ایمان لے آنے کے بجائے پہلی سختی کو بھول گئے اور ان نعمتوں کی بھی قدر نہ کی اور کہنے لگے، اگر ہم قحط اور دوسری مصیبتوں میں مبتلا ہوئے تو محض زمانے کی گردش کی وجہ سے ہوئے ہیں نہ کہ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے۔ دنیا میں ایسے ہوتا ہی رہتا ہے، موسم کے تغیر سے حالات بدلتے رہتے ہیں، کبھی بیماری اور کبھی تندرستی، کبھی خوش حالی اور کبھی بدحالی وغیرہ۔ یہ حالات ہمیں کو نہیں بلکہ ہمارے باپ دادا کو بھی پیش آتے رہے ہیں، مگر جلد ہی ٹلتے بھی رہے ہیں، اس قسم کے حالات پیش آنے میں انسانوں کے اعمال کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایسی توجیہات اب بعض مسلمان بھی کرنے لگے ہیں۔ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ : یعنی جب اللہ تعالیٰ کو اس طرح فراموش کر بیٹھے تو یکایک اللہ کا غضب نازل ہوا اور ایسا عذاب آیا کہ آن کی آن میں سب نیست و نابود ہوگئے۔ ان قوموں کے بعد فرعون اور موسیٰ ؑ کا ذکر آ رہا ہے، فرعون کی قوم پر تنگی اور تکلیف کی گرفت متعدد بار آئی، مثلاً طوفان، جراد اور قمل وغیرہ، مگر انھوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو پہلی قوموں کی طرح اچانک عذاب آیا اور سمندر میں غرق کردیے گئے۔ اس کے برعکس مومنین خوش حالی میں شکر اور تنگ دستی میں صبر کرتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مومن کا معاملہ بھی خوب ہے، کیونکہ اس کا سارا معاملہ بہترین ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اگر اسے خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔“ [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : 2999 ] اس آیت کی تشریح میں شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”بندے کو دنیا میں گناہ کی سزا پہنچتی ہے تو امید ہے توبہ کرے اور جب گناہ راست (موافق) آگیا تو یہ اللہ تعالیٰ کا بھلاوا ہے، پھر ڈر ہے ہلاک (ہونے) کا، جیسے زہر کھایا، اگل دے تو امید ہے اور اگر پچ گیا (ہضم ہوگیا) تو کام آخر ہوا۔“ (موضح)
Top