Ashraf-ul-Hawashi - Al-A'raaf : 95
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
ثُمَّ : پھر بَدَّلْنَا : ہم نے بدلی مَكَانَ : جگہ السَّيِّئَةِ : برائی الْحَسَنَةَ : بھلائی حَتّٰي : یہاں تک کہ عَفَوْا : وہ بڑھ گئے وَّقَالُوْا : اور کہنے لگے قَدْ مَسَّ : پہنچ چکے اٰبَآءَنَا : ہمارے باپ دادا الضَّرَّآءُ : تکلیف وَالسَّرَّآءُ : اور خوشی فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : بیخبر تھے
پھر ہم نے مصیبت کی جگہ (ان کو) آرام دیا2 یہاں تک کہ وہ بڑھ گئے3 اور کہنے لگے ہمارے باپ دادا پر بھی رنج اور خوشی دونوں آتے ہیں4 (سختی ہوئی ہے تو آرام بھی ہوا ہے) آخر ایک ہی ایکا ہم نے ان کو دھر پکڑا اور ان کو خبر نہ تھی5
2 یعنی قحط کی بجائے خوب ارزانی کی اور بیماری کی بجائے تندرستی دی۔3 یعنی ان کی آبادی بڑھ گئی اور مال و دولت کی خوب ریل پیل ہوگئی اور وہ اپنی پچھلی سختیوں کو بھول گئے،4 یعنی اگر ہم قحط اور دوسری سختیوں میں مبتلا ہوئے ہیں تو محض زمانے کی گردش کی وجہ سے ہوئے ہیں کہ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے، دنیا میں اس یا ہوتا ہی رہتا ہے۔ موسم کے تٖغیر سے حالات بدلے تے رہتے ہیں کبھی بیماری اور کبھی تندرستی کبھی خوش حالی اور کبھی بدحالی۔ یہ حالات ہمیں کو نہیں بلکہ ہمراے باپ دادا کو بھی آتے ہیں ہیں مگر جلدی ہی ٹلتے بھی رہے ہیں۔ اس قسم کے حالات پیش آنے میں انسانوں کے اعمال کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایسی توجیہات اب بعض مسلمانوں بھی کرنے لگے ہیں۔5 یعنی اللہ تعالیٰ کو اس طرح فراموش کر بیٹھے تو یکایک اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور ایسا عذان آیا کہ آن کی آن میں سب نیست ونابود ہوگئے۔ اس کے بر عکس مومنین خوشحالی میں لشکر اور تنگدستی میں صبر کرتے ہیں جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے م : مومن کا معاملہ بھی خوب ہے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہرحال میں اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے وار خو شحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم) اس آیت کی تشریح میں شاہ صاحب لکھتے ہیں بندے کو دنیا میں گناہ کی سزا پہنتی ہے تو امید ہے کہ تو بنہ کرے اور جب گناہ راست آگیا تو اللہ تعالیٰ کا بھلا وا ہے اور اگاربیچ گیا تو کام آخر ہوا ّ موضح )
Top