Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 95
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
ثُمَّ : پھر بَدَّلْنَا : ہم نے بدلی مَكَانَ : جگہ السَّيِّئَةِ : برائی الْحَسَنَةَ : بھلائی حَتّٰي : یہاں تک کہ عَفَوْا : وہ بڑھ گئے وَّقَالُوْا : اور کہنے لگے قَدْ مَسَّ : پہنچ چکے اٰبَآءَنَا : ہمارے باپ دادا الضَّرَّآءُ : تکلیف وَالسَّرَّآءُ : اور خوشی فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : بیخبر تھے
اس کے بعد ہم نے بدحالی کی جگہ بدل کر کے خوشحالی پھیلا دی چناچہ انہیں خوب ترقی ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ تنگی اور راحت تو ہمارے باپ دادوں کو بھی پیش آتی رہی تھی اس پر ہم نے ان کو یک بیک پکڑ لیا اور وہ (اس کا) گمان (بھی) نہیں رکھتے تھے،129 ۔
129 ۔ یعنی اس قدر غفلت اور مدہوشی میں پڑے ہوئے تھے۔ (آیت) ” حتی عفوا “۔ یعنی خوب بڑھے، خوب پھلے، خوب پھولے، دولت، صحت، کثرت آبادی، ہر طرح انہیں ترقی ہی ترقی ہوئی کثروا ونموا فی انفسھم واموالھم (کشاف) (آیت) ” قالوا قد مس آبآء نا الضرآء والسرآء “۔ یعنی یہ رنج و راحت اور ادل بدل کر واقعات خارجی وتکوینی تو ہمیشہ سب کو پیش آتے رہتے ہیں۔ انہیں عقاید کی صحت وگمراہی اور حق و باطل کی بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ ای وما ذالک الا من عادۃ الدھر یعاقب فی الناس بین الضراء والسراء ویداولھما بینھم (روح) (آیت) ” فاخذنھم بغتۃ “۔ یعنی اس پر ہم نے انہیں کسی نہ کسی عذاب عذاب شدید میں دفعۃ پکڑ لیا محققین نے لکھا ہے کہ حضرات انبیاء کے مخالفین کو دنیا میں بھی سزا ضرور ملی ہے۔ تاکہ حجت الہی ظاہر ہوجائے اور امر نبوت مخفی نہ رہے ایسی علانیہ نصرت واعانت اولیاء صالحین کے لئے بھی ہوتی ہے مگر ضروری نہیں۔ (آیت) ” الضرآء والسرآء “۔ محققین نے لکھا ہے کہ جس نعمت کے بعد شکر اور مصیبت کے بعد صبر ورجوع حاصل ہو وہ حالت محمود ہے اور جس نعمت کے بعد غفلت و غرور اور مصیبت کے بعد شکایت یا انکار ظاہر ہو وہ حالت سرتاسرمذموم ہے۔
Top