Tafseer-al-Kitaab - An-Nahl : 92
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
ثُمَّ : پھر بَدَّلْنَا : ہم نے بدلی مَكَانَ : جگہ السَّيِّئَةِ : برائی الْحَسَنَةَ : بھلائی حَتّٰي : یہاں تک کہ عَفَوْا : وہ بڑھ گئے وَّقَالُوْا : اور کہنے لگے قَدْ مَسَّ : پہنچ چکے اٰبَآءَنَا : ہمارے باپ دادا الضَّرَّآءُ : تکلیف وَالسَّرَّآءُ : اور خوشی فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : بیخبر تھے
اور اس عورت جیسے نہ بنو جس نے بڑی محنت سے سوت کاتا اور پھر اسے (آپ ہی) آپ ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم آپس کے معاملے میں اپنی قسموں کو مکر و فساد کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھ جائے۔ (یاد رکھو، ) اللہ اس (عہد و پیمان) کے ذریعے سے تمہاری (راست بازی اور استقامت کی) آزمائش کرتا ہے اور جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے رہے ہو قیامت کے دن وہ ضرور تم پر (ان کی اصل حقیقت) ظاہر کردے گا۔
[59] مکہ میں ایک دیوانی عورت تھی۔ دن بھر مشقت سے سوت کا تتی اور پھر اپنے ہاتھوں سے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی۔ اولین مخاطب قرآن اس سے خوب واقف تھے۔ اس کی مثال دے کر فرمایا کہ کہیں تم اپنا حال اس کا سا نہ کرلینا۔
Top