Anwar-ul-Bayan - Hud : 44
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ١ؕ وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ١ۙ وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ۙ۬ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
اِذْ : جب اَنْتُمْ : تم بِالْعُدْوَةِ : کنارہ پر الدُّنْيَا : ادھر والا وَهُمْ : اور وہ بِالْعُدْوَةِ : کنارہ پر الْقُصْوٰي : پرلا وَالرَّكْبُ : اور قافلہ اَسْفَلَ : نیچے مِنْكُمْ : تم سے وَلَوْ : اور اگر تَوَاعَدْتُّمْ : تم باہم وعدہ کرتے لَاخْتَلَفْتُمْ : البتہ تم اختلاف کرتے فِي الْمِيْعٰدِ : وعدہ میں وَلٰكِنْ : اور لیکن لِّيَقْضِيَ : تاکہ پورا کردے اللّٰهُ : اللہ اَمْرًا : جو کام كَانَ : تھا مَفْعُوْلًا : ہو کر رہنے والا لِّيَهْلِكَ : تاکہ ہلاک ہو مَنْ : جو هَلَكَ : ہلاک ہو عَنْ : سے بَيِّنَةٍ : دلیل وَّيَحْيٰي : اور زندہ رہے مَنْ : جس حَيَّ : زندہ رہنا ہے عَنْ : سے بَيِّنَةٍ : دلیل وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَسَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور حکم ہوا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان تھم جا۔ اور پانی کم ہوگیا اور فیصلہ کردیا گیا اور کشتی جو دی پر ٹھہر گئی۔ اور کہہ دیا گیا کہ کافروں کے لیے دوری ہے
طوفان کا ختم ہونا اور کشتی کا جودی پہاڑ پر ٹھہرنا پانی کا طوفان آیا جو خوب زیادہ تھا ‘ پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی اوپر پانی پہنچ گیا اور اس کی موجیں بھی پہاڑوں کی طرح تھیں اتنے کثیر پانی سے کون بچ سکتا تھا۔ سوائے ان مؤمن مخلص بندوں کے جو حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں سوار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا یہ طوفان کتنے دن رہا اس کے بارے میں جو روایات ہیں ان میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ کشتی ایک سو پچاس دن تک پانی پر رہی اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چھ مہینے تیرتی رہی صحیح علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کو طوفان ختم کرنا منظور ہوا تو زمین کو حکم دے دیا کہ اپنے پانی کو نگل لے اور آسمان کو حکم دیا کہ پانی برسانا بند کر دے لہٰذا پانی کم ہوگیا اور اہل کفر کی غرق آبی کا جو اللہ کی طرف سے حکم ہوا تھا اس کے مطابق وہ سب ہلاک ہوگئے کشتی چلتے چلتے جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی۔ اللہ پاک کی طرف سے ندا دیدی گئی کہ ظالموں کے لئے اللہ کی رحمت سے دوری ہے کشتی تو پہاڑ پر ٹھہر گئی لیکن اس سے اترنا کب ہوا ؟ اس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک ماہ تک جودی پہاڑ پر رہے جب حضرت نوح (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہوگیا کہ پانی ختم ہوگیا اور زمین اس لائق ہوگئی کہ اس پر قیام کیا جائے تو وہاں سے نیچے تشریف لے آئے اور پھر ان سے دنیا بسنی شروع ہوئی اور ان کے تینوں بیٹوں سے ( جو کشتی میں ساتھ تھے) آگے دنیا میں نسل چلی جن کے یہ نام مشہور ہیں۔ سام ‘ حام ‘ یافث۔ نوح ( علیہ السلام) کا ایک لڑکا جو کافر ہونے کی وجہ سے غرق ہوگیا تھا۔ اس کے بارے میں انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں یوں عرض کیا کہ (اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ ) کہ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے (وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ ) اور بیشک آپ کا وعدہ سچا ہے۔ (وَاَنْتَ اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ ) اور آپ احکم الحاکمین ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ان کے اہل و عیال کو نجات دینے کا وعدہ فرما لیا تھا اس پر انہوں نے یہ دعا کی ‘ دعا میں ادب کو ملحوظ رکھا یوں نہیں کہا کہ میری لڑکے کو نجات دیجئے بلکہ یوں کہا میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے (جن کے نجات دینے کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے) یہاں مفسرین نے یہ سوال اٹھایا کہ اللہ تعالیٰ نے تو اہل ایمان کو نجات دینے کا وعدہ فرمایا تھا جن میں ان کے اہل و عیال بھی تھے پھر انہوں نے اپنے کافر بیٹے کو نجات کے وعدہ میں کیسے شامل سمجھا ؟ اس کے متعدد جواب لکھے گئے ہیں حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے لکھا ہے کہ ان کا مطلب یہ تھا کہ گویہ لڑکا سردست ایمان والا اور مستحق نجات نہیں ہے۔ لیکن یا اللہ اگر آپ چاہیں تو اس کو مؤمن بنادیں تاکہ یہ بھی وعدہ نجات کا محل بن جائے خلاصہ معروض کا اس کے مومن ہونے کیلئے دعا کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے انہیں جواب دیا گیا کہ اے نوح (علیہ السلام) تمہارا بیٹا ہمارے علم ازلی میں تمہارے ان گھر والوں میں سے نہیں جو ایمان لا کر نجات پائیں گے۔ اس کے اعمال درست نہیں ہیں اور انہیں اعمال میں سے یہ ہے کہ اسے کفر پر اصرار ہے اس کا خاتمہ ایمان پر ہونے والا نہیں تو اس کے لئے نجات کی دعا کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں۔ (فَلَا تَسْءَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ) (سو اے نوح مجھ سے اس بات کا سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں) تم جو یہ سمجھ رہے ہو کہ اس کے ایمان لا کر نجات پانے کا احتمال ہے قضاء وقدر کے فیصلے کے مطابق یہ سمجھ لینا صحیح نہیں ہے۔ (اِنِّیْ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ ) (بےشک میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے مت بنو) (قَالَ رَبِّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْءَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ) ( نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے رب میں اس بات سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے) (وَاِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ ) (اور اگر آپ نے میری مغفرت نہ فرمائی اور مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میں تباہ کاروں میں سے ہوجاؤں گا) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بیٹھے کی نجات کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب اور عتاب غرق ہونے کے بعد تھا تو پھر یہ کہنا صحیح نہیں کہ انہوں نے اس کے ایمان لانے کیلئے دعا کی تھی تاکہ ایمان لانے والوں میں شمار ہو کر نجات پا جائے کیونکہ اس کا موقع رہا ہی نہ تھا اور اگر اس کے غرق ہونے سے پہلے یہ دعا کی تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب مل گیا تھا کہ اسے کفر پر مرنا ہے تو بیٹے سے یہ کیوں فرمایا کہ ایمان لا کر ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا۔ احقر کے خیال میں اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ دعا اور سوال و جواب بیٹے کے جواب (سَاوِیْ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَاءِ ) اور اس کے غرق ہونے کے درمیانی وقفہ میں تھا کیونکہ ابھی موج ہی حائل ہوئی تھی اس کے غرق ہونے کا پتہ نہ چلا تھا بعد میں وہ غرق ہوا اور (وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا) جو فرمایا تھا اس کا یہ مطلب تھا کہ کسی کافر کے کفر پر رہتے ہوئے اس کی نجات کا سوال نہ کرنا واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Top