Mualim-ul-Irfan - Hud : 44
وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا يٰٓاَرْضُ : اے زمین ابْلَعِيْ : نگل لے مَآءَكِ : اپنا پانی وَيٰسَمَآءُ : اور اے آسمان اَقْلِعِيْ : تھم جا وَغِيْضَ : اور خشک کردیا گیا الْمَآءُ : پانی وَقُضِيَ : اور پورا ہوچکا (تمام ہوگیا) الْاَمْرُ : کام وَاسْتَوَتْ : اور جا لگی عَلَي الْجُوْدِيِّ : جودی پہاڑ پر وَقِيْلَ : اور کہا گیا بُعْدًا : دوری لِّلْقَوْمِ : لوگوں کے لیے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور حکم دیا گیا (زمین کو) اے زمین ! نگل جا تو اپنے پانی کو اور (آسمان کو حکم دیا گیا) اے آسمان ! اب تھم جائو تم (بارش برسانے سے) اور خشک کردیا گیا پانی اور فیصلہ کیا گیا معاملے کا اور جا ٹکی وہ کشتی جودی پہاڑ پر اور کہا گیا کہ دوری (اور ہلاکت) ہے ان لوگوں کے لیے جو ظلم کرنے والے ہیں
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم پر طوفان کی شکل میں عذاب نازل فرمایا اور ساری نافرمان قوم کو اس طوفان میں غرق کیا ، پھر یہ بات بھی بیان ہوچکی ہے کہ آپ کی قوم کے اہل ایمان کو اللہ نے کشتی کے ذریعے نجات دی۔ یہ طوفان تقریبا سات ماہ تک اس قوم پر مسلط رہا۔ چالیس دن تک متواتر بارش ہوتی رہی اور زمین کے چشمے بھی پھوٹتے رہے حتی کہ پوری سطح ارض بلند ترین پہاڑوں سے بھی بیس ہاتھ اوپر تک پانی سے بھر گئی جیسا کہ گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ زمین پر پہاڑوں سے بھی بیس ہاتھ اوپر تک پانی سے بھرگئی جیسا کہ گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ زمین پر پہاڑوں جتنی بلند موجیں اٹھ رہیں تھیں اور نوح (علیہ السلام) کی کشتی ان کے درمیان چل رہی تھی۔ وہ منظر کتنا خوفناک ہوگا۔ اس پر یشانی کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو بچالیا۔ طوفان تھم گیا جب پوری قوم غرق ہوگی (آیت) ” وقیل یارض ابلعی ماء ک “ اے زمین اپنا پانی نگل لے۔ بارش اور چشموں کا جو اپنی سطح زمین پر جمع ہوگیا تھا اس کے متعلق زمین کو حکم ہوا کہ اس سارے پانی کو اپنے اندار جذب کرلے۔ سورة زمر میں (آیت) ” فسل کہ ینابع فی الارض “ اللہ تعالیٰ نے نالیوں اور چشموں کی صورت میں پانی کو زمین کے اندر ذخیرہ کردیا ہے۔ چناچہ پانی کی عام ضروریات بارش کے علاوہ زمینی پانی سے بھی پوری کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی تہ میں پانی کو محفوظ کردیا ہے۔ جو کنوئیں ، ہینڈ پمپ اور ٹیوب ویل کے ذریعے نکال کر انسانی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت سے پانی کو کہیں مسطع ارض سے قریب رکھا ہے جہاں سے بیس تیس فٹ کی گہرائی سے پانی مل جاتا ہے جب کہ بعض خطے ایسے ہیں جہاں پر بارہ بارہ سو میٹر کی گہراہی سے پانی نکالنا پڑتا ہے بہرحال بارش اور ان چشموں کا جو پانی اللہ کے حکم سے زمین کی سطح پر آگیا تھا اس کے متعلق حکم ہوا کہ اے زمین اس سارے پانی کو اب واپس اپنے اندر چشموں کی صورت میں جذب کرلے۔ اور ساتھ یہ بھی حکم ہوا۔ (آیت) ” ویسماء اقلعی “ اور اے آسمان تھم جائو یعنی بارش برسانے سے رک جائو۔ (آیت) ” وغیض الماء “ اور جو پانی زمین پر موجود تھا اسے بتدریج خشک کردیا گیا۔ مطلب یہ کہ طوفان کے تمام ذرائع کو ختم کردیا گیا (آیت) ” وقضی الامر “ اور معاملے کا فیصلہ کردیا گیا یعنی جن نافرمانوں کو ختم کرنا مقصود تھا ان کو پانی میں غرق کردیا گیا۔ جودی پہاڑ ادھر کشتی تو پانی پر چل رہی تھی جب پانی اتر گیا (آیت) ” واستوت علی الجودی “ تو کشتی جودی پہاڑ پر جا کر رک گئی۔ تورات میں اس پہاڑی کا نام اراروط یا اراراط آیا ہے۔ تا ہم اس بات کی وضاحت کہیں نہیں ملتی کہ زمین کا پانی کتنے عرصہ میں خشک ہوا جس کے بعد لوگ کشتی سے باہر آئے۔ البتہ تفسیری روایات سے یہ بات واضح ہے کہ نوح (علیہ السلام) طوفان کے بعد بھی ساٹھ سال تک زندہ رہے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے نوع (علیہ السلام) کی اولاد کو خوب پھیلایا۔ روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کشتی سوار انسانوں میں سے نوح (علیہ السلام) کے صرف تین بیٹوں سام ، حام ، اور یافث سے نسل انسانی آگے بڑھی اور زمین پھر انسانوں سے آباد ہوگئی جودی پہاڑ آرمینیا کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔ یہ سلسلہ کوہ خلیج فارس سے لے کر کردستان تک پھیلا ہوا اور یہیں ایک پہاڑ جودی بھی ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں کوہ ہمالیہ اور قراقرم اڑھائی تین ہزار میل میں پھیلا ہوا ہے ، اسی طرح آرمینیا کا پہاڑی سلسلہ بھی ہزاروں میلوں میں موجود ہے۔ بہرحال نافرن قوم کی ہلاکت کے بعد طوفان کر روک دیا گیا۔ (آیت) ” وقیل بعدا للقوم الظلمین “ اور کہا گیا کہ ہلاکت ہے ظالم قوم کے لیے جن لوگوں نے اللہ کی توحید کا انکار کیا ، حضرت نوح (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کو تسلیم نہ کیا۔ قیامت کا انکار کیا ، اللہ کے نبی کو بیحد تکلیفیں دیں ، حقیقت میں انہوں نے بڑا ظلم کیا اور اللہ نے ان کے لیے ہلاکت وتباہی کا حکم صادر فرما دیا۔ بیٹے کے لیے دعا پچھلے درس میں گزر چکا ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے نافرمانوں بیٹے کنعان کو بھی کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں غرق ہونے سے بچنے کے لیے کسی پہاڑ پر چڑھ جائوں گے۔ مگر اسی دوران میں پانی کی ایک زبردست لہر آئی جو کنعان کو بہا کرلے گئی۔ اس موقع پر نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اس بیٹے کے حق میں دعا بھی کی تھی جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے (آیت) ” ونادی نوح ربہ “ اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کو پکارا (آیت) ” فقال رب ان ابنی من اھلی “ اور کہا اے پروردگار ! میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے (آیت) ” وان وعدک الحق “ اور تیرا وعدہ بھی برحق ہے (آیت) ” وانت احکم الحکمین “ اور تو سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہے۔ اللہ کا وعدہ یہ تھا کہ کشتی میں اپنے گھر والوں کو سوار کر سوائے ان کے کہ جن کے متعلق بات ہوچکی ہے۔ اس کے ساتھ اہل ایمان کو اور ہر جانور کا جوڑا جوڑا بھی لاد لو ، اللہ تعالیٰ ان کو محفوظ رکھے گا اور باقی سب کو ہلاک کر دیگا۔ تو (آیت) ” وعدک الحق “ سے یہی مراد ہے کہ مولا کریم ! تو نے خود فرمایا تھا کہ اپنے اہل کو سوار کرلے مگر یہ نافرمان بیٹا خود انکار کر رہا ہے ۔ تیرا وعدہ بھی برحق ہے اور یہ سوار بھی نہیں ہوتا ، آخر اس میں تیری کیا حکمت ہے ؟ اللہ کا سخت جواب نوح (علیہ السلام) کی اس دعا کا اللہ تعالیٰ نے بڑی سختی کے ساتھ جواب دیا (آیت) ” قال ینوح انہ لیس من اھلک “ فرمایا ، اے نوح (علیہ السلام) ! یہ بیٹا تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ کیونکہ (آیت) ” انہ عمل غیر صالح “ یہ سرتاپا بےعمل ہے ، ایسا شخص تیرے اہل میں سے کیسے ہوسکتا ہے ؟ تیرے اہل میں سے تو ایمان دار ہی ہو سکتے ہیں مگر یہ تو کلیۃ بےعمل ہی بےعمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مبالغے کے طور پر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا ہے (آیت) ” ان لہ عمل غیر صالح “ اس کے اعمال اچھے نہیں ہیں۔ بعض نے اس قراءت میں بھی پڑھا ہے (آیت) ” انہ عمل غیر صالح “ اس نے برا کام کیا ہے۔ بداعتقادی اور بدعملی کو یکجا کردیا ہے۔ بعض اس کا معنی یہ بھی کرتے ہیں (آیت) ” انہ ذو عمل غیر صالح “ یہ تو ایسے عمل کا مالک ہے جو صالح نہیں ، بہرحال اللہ نے فرمایا یہ تیرے اہل میں سے نہیں کیونکہ اس کے اعمال بہتر نہیں (آیت) ” فلا تسئلن ما لیس لک بہ علم “ پس نہ سوال کر مجھ سے اس چیز کے بارے میں جس کا تجھے علم نہیں (آیت) ” انی اعظک ان تکون من الجھلین “ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو نا دانوں میں سے ہوجائے گا۔ جس چیز کے متعلق تجھے علم نہیں اس کا کیوں سوال کرتے ہو ؟ خالی نسلی قرابت مفید نہیں اس سے ایک مسئلہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کے ساتھ خالی نسلی قرابت مفید نہیں جب تک کہ ایمان موجود نہ ہو۔ خود حضور خاتم النبین ﷺ نے بھی اپنی بیٹی ، پھوپھی اور چچائوں سے فرمایا تھا کہ میرا تم سے قرابت کا رشتہ ہے جس کا حق میں تمہیں دنیا میں ہی ادا کرتا رہوں گا۔ لیکن اگر تم ایمان قبول نہیں کرو گا اور نیکی اختیار نہیں کرو گے تو اللہ کے پاس میں تمہیں بچا نہیں سکوں گا۔ (آیت) ” انقذوا انفسکم من النار “ اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچا لو یعنی ایمان قبول کرلو کیونکہ رشتہ داری اور قرابت ایمان کے ساتھ ہی قبول ہوسکتے ہیں۔ یہی بات اس آیت میں بھی پائی جاتی ہے اور حضور ﷺ کی حدیث بھی موجود ہے کہ خالی نسلی قرابت کسی کام نہ آئے گی۔ نوح (علیہ السلام) کی لغزش جمہور مفسرین نے بیٹے کے حق میں اس دعا کو نوح (علیہ السلام) کی لغزش قرار دیا ہے ، یہ کوئی ایسی گناہ کی بات نہ تھی ، معمولی لغزش تھی۔ مگر چونکہ آپ اللہ کے نبی اور مقرب تھے اس لیے اللہ نے اس معمولی لغزش کا بھی سختی سے نوٹس لیا اور آپ کو ایسا سوال کرنے کی وجہ سے جھڑک دیا۔ البتہ بعض مفسرین کو یہ نکتہ سمجھنے میں خود غلطی ہوئی ہے جن میں ہمارے زمانے کے مفسر قرآن مولانا ودودی بھی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی تفسیر اردو دان طبقے میں کثرت سے پڑھی جاتی ہے مگر یہ اغلاط سے خالی نہیں۔ اس میں کئی اعتقادی اور فقہی یعنی مسئلے مسائل کی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ مولانا ذہین اور وسیع المطالعہ شخصیت تھے مگر ان کی غلطیوں کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے علم مطالعہ کے زور پر حاصل کیا تھا ، کسی استاد سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی ، لہٰذا مستند عالم نہیں تھے ، استاد سے پڑھنے والے آدمی کے خیالات منظم ہوتے ہیں اور جہاں کہیں اشکال پیدا ہو یا کوئی بات سمجھ میں نہ آتی ہو تو استاد یا شیخ کی طرف رجوع کرلیا جاتا ہے۔ مولانا مرحوم میں یہ چیز مفقود تھی لہٰذا جو کچھ ان کی سمجھ میں آگیا ، انہوں نے بلا تصدیق کہہ دیا۔ مولانا سید احمد بجنوری ابھی تقید حیات ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے مولانا صاحب کی تفسیر کا مطالعہ کیا ہے اور میں نے اس میں علمی ، اعتقادی ، فقیہی اور تفسیری ایک سو غلطیاں نوٹ کی ہیں۔ چناچہ مودودی اس آیت کی تفسیر میں میں لکھتے ہیں۔ 50 ؎ اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے۔ کہ حضرت نوح کی اندر روح ایمان کی کمی تھی ، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء بھی انسان ہی ہوتے ہیں ، اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہوسکتا کہ ہر وقت اس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلی اوشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے ، لیکن جونہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے ، یا اللہ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جا رہا ہے ، وہ فورا توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اسے ایک لمحہ کے لیے بھی تامل نہیں ہوتا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ابھی جان جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آرہا ہے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے ، تو وہ فورا اپنے دل کے زخم سے بےپروا ہو کر اس طرف فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضیٰ ہے۔ دیکھو کتنی غلط بات کہہ رہے ہیں کہ نبی اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو کر معیار کمال سے گر جاتا ہے۔ حالانکہ نبی اس کمال کو ہر وقت قائم رکھتے ہیں جو اللہ نے ان کے لیے رکھا ہے۔ خدا تعالیٰ ان سے کوئی گناہ نہیں ہونے دیتا کیونکہ یہ عصمت انبیاء کے خلاف بات ہے۔ مودودی صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک آدمی جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی بات کرتا ہے ، اسی طرح نبی بھی ایسی بات کرتا ہے۔ اس طرح تو نبی مقتداء کیسے بنے گا اور اس کی بات کا ہر وقت یقین کیسے ہوگا ؟ اسی طرح آگے آپ نے نوح (علیہ السلام) کے لیے جذبہ جاہلیت ثابت کیا ہے۔ یہ فحش غلطی ہے۔ نوح (علیہ السلام) میں نہ جذبہ جاہلیت تھا اور نہ وہ بشری کمزوری میں مبتلا ہو کر معیار کمال سے نیچے گرے تھے۔ یہ نہ تو گناہ کبیرہ تھا اور نہ صغیرہ ، بلکہ صرف ایک اجتہادی لغزش تھی اور نبی سے اجتہادی لغزش ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) سے بھی ہوئی۔ ہر نبی سے کچھ نہ کچھ معمولی لغزشت ہوجاتی ہے جو کہ عام آدمیوں کے اعتبار سے گناہ ہی نہیں ہوتا لکین نبی کی ذات چونکہ بلند ہوتی ہے ، اس لیے وہاں معمولی سی بات پر بھی بڑی گرفت ہوتی ہے۔ ما تریدی (رح) کی توجہیہ امام ابو منصور ماتریدی (رح) امام ابوحنیفہ (رح) کے دو واسطوں سے شاگرد تھے۔ وہ تفسیر میں لکھتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کے ایمان کے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔ وہ آپ ہی کے گھر میں منافقوں کی طرح رہتا تھا مگر کافروں کے ساتھ ملا ہوا تھا ، بیوی کا بھی یہی حال تھا۔ یہ دونوں درپردہ کافروں کے ساتھ تھے مگر نوح (علیہ السلام) کو علم نہیں تھا کہ یہ حقیقت میں ایمان سے خالی ہیں۔ یہ بات قرین قیاس ہے کیونکہ نبی عالم الغیب تو ہوتا نہیں کہ اسے معلوم ہو کہ فلاں فلاں منافق آدمی ہیں۔ خود حضور ﷺ کو اللہ نے سورة توبہ میں فرمایا ہے۔ کہ مدینہ اور اردگرد میں کتنے منافق ایسے ہیں (آیت) ” لا تعلمھم نحن نعلمھم “ جن کو آپ نہیں جانتے بلکہ ہم انہیں جانتے ہیں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں آپ کی مجلس میں آتے ہیں اور بعض اوقات جہاد میں شریک ہوتے ہیں مگر جب تک وحی کے ذریعے اطلاع نہ دی جائے ان کا پتہ نہیں چلتا۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو بھی بیٹے کے کفر اور نفاق کا علم نہ ہو مگر اللہ نے اس معاملے میں سختی اس لیے کی کہ آپ کا بیٹا آپ کی دعوت کے باوجود آپ کے ساتھ کشتی میں سوار نہ ہوا اور نبی کی فراست بھی غیر معمولی ہوتی ہے تو آپ کو بیٹے کے کفر کا اندازہ ہوجانا چاہیے تھا اور خدا کی بارگاہ میں اس لیے دعا نہیں کرنی چاہیے تھی ، کیونکہ یہ بات خدا کی مرضی کے خلاف تھی۔ یہ نہ تو جذبہ جاہلیت تھا اور نہ نوح (علیہ السلام) اپنے مقام عصمت سے گرے تھے ، یہ تو چھوٹی سی لغزش تھی۔ نبی معصوم ہوتا ہے ، خدا اس سے گناہ نہیں سرزد ہونے دیتا بلکہ اسے گارنٹی حاصل ہوتی ہے۔ نبی خواہ خوشی کی حالت میں ہو یا غمی کی حالت میں یا غصے کی حالت میں ، اس کی ہر بات حق اور واجب التعمیل ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ میں جو کچھ زبان سے کہتا ہوں۔ وہ حق ہوتا ہے ، چاہے میں کوئی بات ہنسی مذاق میں ہی کیوں نہ کروں۔ تو امام ابو منصور ما تریدی (رح) کی توجیہ یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو علم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا کافر ہے۔ آپ سوال کر بیٹھے تو اللہ نے سخت ڈانٹ پلائی۔ آپ کے بلند مرتبہ پر فائز ہو نیکی وجہ سے اللہ نے اتنی سی لغزش بھی معاف نہ فرمائی۔ خود حضور ﷺ نے نابینا آدمی سے ذرا بےاعتنائی برتی تھی تو سورة عبس کی آیات نازل ہوگئیں آیت ” عبس وتولی ان جاء ہ الاعمی “ آپ نے ایک نابینا آدمی سے روگردانی کی۔ یہ کوئی گناہ نہیں تھا بلکہ ذرا سی بےتوجہی کی تو فورگرفت آگئی۔ شیخ الاسلام (رح) کی توجہیہ شیخ الاسلام (رح) فرماتے ہیں کہ اگر نوح (علیہ السلام) کو بیٹے کے کفر کا علم تھا تو پھر سوال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کو سمجھنا چاہتے تھے کہ اے پروردگار ! تیرا وعدہ تو یہ تھا کہ تیرے اہل کو بچا لوں گا مگر میرا بیٹا ڈوب رہا ہے ، مجھے خبر دے کہ اس کی حکمت کیا ہے۔ آپ کے سوال کرنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس کو کیوں غرق کیا یا اس کو ضرور ہی بچا لیا جائے۔ تا ہم شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ اگر حقیقت حال ہی معلوم کرنا مطلوب تھی ، تو بڑے آدمیوں کو پہلے مالک کی مرضی معلوم کرنی چاہیے کہ وہ ایسے سوال سے سے ناراض تو نہیں ہوگا ، مگر نوح (علیہ السلام) نے براہ راست بیٹے کے متعلق سوال کردیا جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند تھا ، اس لیے اس نے تنبیہ فرمائی۔ نوح (علیہ السلام) کو بیٹے کے کفر کے بارے میں علم نہیں تھا اور جس بات کے متعلق علم نہ ہو ، اس کو ابہام پر ہی رہنے دینا چاہیے تھا۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی چیز کو مخفی رکھنا چاہتا ہے اور اگر ایسی بات کے متعلق سوال ہوگا تو اللہ تعالیٰ ناپسند کرے گا۔ معافی کی درخواست جب نوح (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ بیٹے کے متعلق ان کا سوال اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آیا تو انہوں نے فورا رجوع کرلیا (آیت) ” قال رب انی اعوذ بک ان اسئلک ما لیس لی بہ علم “ اے پروردگار میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں کہ میں کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں۔ یہی آپ کے کمال کی علامت ہے جب آدم (علیہ السلام) کو اپنی لغزش کا احساس ہوا تو انہوں نے بھی فورا اقرار کرلیا (آیت) ” ربنا ظلمنا انفسنا “ اے پروردگار ! بیشک ہم نے نفسوں پر ظلم کیا۔ (آیت) ” وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین “ (اعراف) اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گے یہی عاجزی اور ابتہال نوح (علیہ السلام) نے اللہ کے سامنے کی ۔ (آیت) ” والا تغفرلی وترحمنی ان من الخسرین “ اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں فرمائے گا۔ تو میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوجائوں گا آپ نے یہ نہیں کہا کہ باری تعالیٰ ! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، بلکہ لغزش کی معافی طلب کرلی اور یہی عاجزی اللہ کے نزدیک سب سے بڑا کمال ہے۔
Top