Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Hud : 44
وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَقِيْلَ
: اور کہا گیا
يٰٓاَرْضُ
: اے زمین
ابْلَعِيْ
: نگل لے
مَآءَكِ
: اپنا پانی
وَيٰسَمَآءُ
: اور اے آسمان
اَقْلِعِيْ
: تھم جا
وَغِيْضَ
: اور خشک کردیا گیا
الْمَآءُ
: پانی
وَقُضِيَ
: اور پورا ہوچکا (تمام ہوگیا)
الْاَمْرُ
: کام
وَاسْتَوَتْ
: اور جا لگی
عَلَي الْجُوْدِيِّ
: جودی پہاڑ پر
وَقِيْلَ
: اور کہا گیا
بُعْدًا
: دوری
لِّلْقَوْمِ
: لوگوں کے لیے
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور حکم دیا گیا (زمین کو) اے زمین ! نگل جا تو اپنے پانی کو اور (آسمان کو حکم دیا گیا) اے آسمان ! اب تھم جائو تم (بارش برسانے سے) اور خشک کردیا گیا پانی اور فیصلہ کیا گیا معاملے کا اور جا ٹکی وہ کشتی جودی پہاڑ پر اور کہا گیا کہ دوری (اور ہلاکت) ہے ان لوگوں کے لیے جو ظلم کرنے والے ہیں
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم پر طوفان کی شکل میں عذاب نازل فرمایا اور ساری نافرمان قوم کو اس طوفان میں غرق کیا ، پھر یہ بات بھی بیان ہوچکی ہے کہ آپ کی قوم کے اہل ایمان کو اللہ نے کشتی کے ذریعے نجات دی۔ یہ طوفان تقریبا سات ماہ تک اس قوم پر مسلط رہا۔ چالیس دن تک متواتر بارش ہوتی رہی اور زمین کے چشمے بھی پھوٹتے رہے حتی کہ پوری سطح ارض بلند ترین پہاڑوں سے بھی بیس ہاتھ اوپر تک پانی سے بھر گئی جیسا کہ گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ زمین پر پہاڑوں سے بھی بیس ہاتھ اوپر تک پانی سے بھرگئی جیسا کہ گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ زمین پر پہاڑوں جتنی بلند موجیں اٹھ رہیں تھیں اور نوح (علیہ السلام) کی کشتی ان کے درمیان چل رہی تھی۔ وہ منظر کتنا خوفناک ہوگا۔ اس پر یشانی کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو بچالیا۔ طوفان تھم گیا جب پوری قوم غرق ہوگی (آیت) ” وقیل یارض ابلعی ماء ک “ اے زمین اپنا پانی نگل لے۔ بارش اور چشموں کا جو اپنی سطح زمین پر جمع ہوگیا تھا اس کے متعلق زمین کو حکم ہوا کہ اس سارے پانی کو اپنے اندار جذب کرلے۔ سورة زمر میں (آیت) ” فسل کہ ینابع فی الارض “ اللہ تعالیٰ نے نالیوں اور چشموں کی صورت میں پانی کو زمین کے اندر ذخیرہ کردیا ہے۔ چناچہ پانی کی عام ضروریات بارش کے علاوہ زمینی پانی سے بھی پوری کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی تہ میں پانی کو محفوظ کردیا ہے۔ جو کنوئیں ، ہینڈ پمپ اور ٹیوب ویل کے ذریعے نکال کر انسانی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت سے پانی کو کہیں مسطع ارض سے قریب رکھا ہے جہاں سے بیس تیس فٹ کی گہرائی سے پانی مل جاتا ہے جب کہ بعض خطے ایسے ہیں جہاں پر بارہ بارہ سو میٹر کی گہراہی سے پانی نکالنا پڑتا ہے بہرحال بارش اور ان چشموں کا جو پانی اللہ کے حکم سے زمین کی سطح پر آگیا تھا اس کے متعلق حکم ہوا کہ اے زمین اس سارے پانی کو اب واپس اپنے اندر چشموں کی صورت میں جذب کرلے۔ اور ساتھ یہ بھی حکم ہوا۔ (آیت) ” ویسماء اقلعی “ اور اے آسمان تھم جائو یعنی بارش برسانے سے رک جائو۔ (آیت) ” وغیض الماء “ اور جو پانی زمین پر موجود تھا اسے بتدریج خشک کردیا گیا۔ مطلب یہ کہ طوفان کے تمام ذرائع کو ختم کردیا گیا (آیت) ” وقضی الامر “ اور معاملے کا فیصلہ کردیا گیا یعنی جن نافرمانوں کو ختم کرنا مقصود تھا ان کو پانی میں غرق کردیا گیا۔ جودی پہاڑ ادھر کشتی تو پانی پر چل رہی تھی جب پانی اتر گیا (آیت) ” واستوت علی الجودی “ تو کشتی جودی پہاڑ پر جا کر رک گئی۔ تورات میں اس پہاڑی کا نام اراروط یا اراراط آیا ہے۔ تا ہم اس بات کی وضاحت کہیں نہیں ملتی کہ زمین کا پانی کتنے عرصہ میں خشک ہوا جس کے بعد لوگ کشتی سے باہر آئے۔ البتہ تفسیری روایات سے یہ بات واضح ہے کہ نوح (علیہ السلام) طوفان کے بعد بھی ساٹھ سال تک زندہ رہے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے نوع (علیہ السلام) کی اولاد کو خوب پھیلایا۔ روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کشتی سوار انسانوں میں سے نوح (علیہ السلام) کے صرف تین بیٹوں سام ، حام ، اور یافث سے نسل انسانی آگے بڑھی اور زمین پھر انسانوں سے آباد ہوگئی جودی پہاڑ آرمینیا کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔ یہ سلسلہ کوہ خلیج فارس سے لے کر کردستان تک پھیلا ہوا اور یہیں ایک پہاڑ جودی بھی ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں کوہ ہمالیہ اور قراقرم اڑھائی تین ہزار میل میں پھیلا ہوا ہے ، اسی طرح آرمینیا کا پہاڑی سلسلہ بھی ہزاروں میلوں میں موجود ہے۔ بہرحال نافرن قوم کی ہلاکت کے بعد طوفان کر روک دیا گیا۔ (آیت) ” وقیل بعدا للقوم الظلمین “ اور کہا گیا کہ ہلاکت ہے ظالم قوم کے لیے جن لوگوں نے اللہ کی توحید کا انکار کیا ، حضرت نوح (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کو تسلیم نہ کیا۔ قیامت کا انکار کیا ، اللہ کے نبی کو بیحد تکلیفیں دیں ، حقیقت میں انہوں نے بڑا ظلم کیا اور اللہ نے ان کے لیے ہلاکت وتباہی کا حکم صادر فرما دیا۔ بیٹے کے لیے دعا پچھلے درس میں گزر چکا ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے نافرمانوں بیٹے کنعان کو بھی کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں غرق ہونے سے بچنے کے لیے کسی پہاڑ پر چڑھ جائوں گے۔ مگر اسی دوران میں پانی کی ایک زبردست لہر آئی جو کنعان کو بہا کرلے گئی۔ اس موقع پر نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اس بیٹے کے حق میں دعا بھی کی تھی جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے (آیت) ” ونادی نوح ربہ “ اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کو پکارا (آیت) ” فقال رب ان ابنی من اھلی “ اور کہا اے پروردگار ! میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے (آیت) ” وان وعدک الحق “ اور تیرا وعدہ بھی برحق ہے (آیت) ” وانت احکم الحکمین “ اور تو سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہے۔ اللہ کا وعدہ یہ تھا کہ کشتی میں اپنے گھر والوں کو سوار کر سوائے ان کے کہ جن کے متعلق بات ہوچکی ہے۔ اس کے ساتھ اہل ایمان کو اور ہر جانور کا جوڑا جوڑا بھی لاد لو ، اللہ تعالیٰ ان کو محفوظ رکھے گا اور باقی سب کو ہلاک کر دیگا۔ تو (آیت) ” وعدک الحق “ سے یہی مراد ہے کہ مولا کریم ! تو نے خود فرمایا تھا کہ اپنے اہل کو سوار کرلے مگر یہ نافرمان بیٹا خود انکار کر رہا ہے ۔ تیرا وعدہ بھی برحق ہے اور یہ سوار بھی نہیں ہوتا ، آخر اس میں تیری کیا حکمت ہے ؟ اللہ کا سخت جواب نوح (علیہ السلام) کی اس دعا کا اللہ تعالیٰ نے بڑی سختی کے ساتھ جواب دیا (آیت) ” قال ینوح انہ لیس من اھلک “ فرمایا ، اے نوح (علیہ السلام) ! یہ بیٹا تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ کیونکہ (آیت) ” انہ عمل غیر صالح “ یہ سرتاپا بےعمل ہے ، ایسا شخص تیرے اہل میں سے کیسے ہوسکتا ہے ؟ تیرے اہل میں سے تو ایمان دار ہی ہو سکتے ہیں مگر یہ تو کلیۃ بےعمل ہی بےعمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مبالغے کے طور پر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا ہے (آیت) ” ان لہ عمل غیر صالح “ اس کے اعمال اچھے نہیں ہیں۔ بعض نے اس قراءت میں بھی پڑھا ہے (آیت) ” انہ عمل غیر صالح “ اس نے برا کام کیا ہے۔ بداعتقادی اور بدعملی کو یکجا کردیا ہے۔ بعض اس کا معنی یہ بھی کرتے ہیں (آیت) ” انہ ذو عمل غیر صالح “ یہ تو ایسے عمل کا مالک ہے جو صالح نہیں ، بہرحال اللہ نے فرمایا یہ تیرے اہل میں سے نہیں کیونکہ اس کے اعمال بہتر نہیں (آیت) ” فلا تسئلن ما لیس لک بہ علم “ پس نہ سوال کر مجھ سے اس چیز کے بارے میں جس کا تجھے علم نہیں (آیت) ” انی اعظک ان تکون من الجھلین “ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو نا دانوں میں سے ہوجائے گا۔ جس چیز کے متعلق تجھے علم نہیں اس کا کیوں سوال کرتے ہو ؟ خالی نسلی قرابت مفید نہیں اس سے ایک مسئلہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کے ساتھ خالی نسلی قرابت مفید نہیں جب تک کہ ایمان موجود نہ ہو۔ خود حضور خاتم النبین ﷺ نے بھی اپنی بیٹی ، پھوپھی اور چچائوں سے فرمایا تھا کہ میرا تم سے قرابت کا رشتہ ہے جس کا حق میں تمہیں دنیا میں ہی ادا کرتا رہوں گا۔ لیکن اگر تم ایمان قبول نہیں کرو گا اور نیکی اختیار نہیں کرو گے تو اللہ کے پاس میں تمہیں بچا نہیں سکوں گا۔ (آیت) ” انقذوا انفسکم من النار “ اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچا لو یعنی ایمان قبول کرلو کیونکہ رشتہ داری اور قرابت ایمان کے ساتھ ہی قبول ہوسکتے ہیں۔ یہی بات اس آیت میں بھی پائی جاتی ہے اور حضور ﷺ کی حدیث بھی موجود ہے کہ خالی نسلی قرابت کسی کام نہ آئے گی۔ نوح (علیہ السلام) کی لغزش جمہور مفسرین نے بیٹے کے حق میں اس دعا کو نوح (علیہ السلام) کی لغزش قرار دیا ہے ، یہ کوئی ایسی گناہ کی بات نہ تھی ، معمولی لغزش تھی۔ مگر چونکہ آپ اللہ کے نبی اور مقرب تھے اس لیے اللہ نے اس معمولی لغزش کا بھی سختی سے نوٹس لیا اور آپ کو ایسا سوال کرنے کی وجہ سے جھڑک دیا۔ البتہ بعض مفسرین کو یہ نکتہ سمجھنے میں خود غلطی ہوئی ہے جن میں ہمارے زمانے کے مفسر قرآن مولانا ودودی بھی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی تفسیر اردو دان طبقے میں کثرت سے پڑھی جاتی ہے مگر یہ اغلاط سے خالی نہیں۔ اس میں کئی اعتقادی اور فقہی یعنی مسئلے مسائل کی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ مولانا ذہین اور وسیع المطالعہ شخصیت تھے مگر ان کی غلطیوں کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے علم مطالعہ کے زور پر حاصل کیا تھا ، کسی استاد سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی ، لہٰذا مستند عالم نہیں تھے ، استاد سے پڑھنے والے آدمی کے خیالات منظم ہوتے ہیں اور جہاں کہیں اشکال پیدا ہو یا کوئی بات سمجھ میں نہ آتی ہو تو استاد یا شیخ کی طرف رجوع کرلیا جاتا ہے۔ مولانا مرحوم میں یہ چیز مفقود تھی لہٰذا جو کچھ ان کی سمجھ میں آگیا ، انہوں نے بلا تصدیق کہہ دیا۔ مولانا سید احمد بجنوری ابھی تقید حیات ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے مولانا صاحب کی تفسیر کا مطالعہ کیا ہے اور میں نے اس میں علمی ، اعتقادی ، فقیہی اور تفسیری ایک سو غلطیاں نوٹ کی ہیں۔ چناچہ مودودی اس آیت کی تفسیر میں میں لکھتے ہیں۔ 50 ؎ اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے۔ کہ حضرت نوح کی اندر روح ایمان کی کمی تھی ، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء بھی انسان ہی ہوتے ہیں ، اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہوسکتا کہ ہر وقت اس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلی اوشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے ، لیکن جونہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے ، یا اللہ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جا رہا ہے ، وہ فورا توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اسے ایک لمحہ کے لیے بھی تامل نہیں ہوتا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ابھی جان جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آرہا ہے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے ، تو وہ فورا اپنے دل کے زخم سے بےپروا ہو کر اس طرف فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضیٰ ہے۔ دیکھو کتنی غلط بات کہہ رہے ہیں کہ نبی اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو کر معیار کمال سے گر جاتا ہے۔ حالانکہ نبی اس کمال کو ہر وقت قائم رکھتے ہیں جو اللہ نے ان کے لیے رکھا ہے۔ خدا تعالیٰ ان سے کوئی گناہ نہیں ہونے دیتا کیونکہ یہ عصمت انبیاء کے خلاف بات ہے۔ مودودی صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک آدمی جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی بات کرتا ہے ، اسی طرح نبی بھی ایسی بات کرتا ہے۔ اس طرح تو نبی مقتداء کیسے بنے گا اور اس کی بات کا ہر وقت یقین کیسے ہوگا ؟ اسی طرح آگے آپ نے نوح (علیہ السلام) کے لیے جذبہ جاہلیت ثابت کیا ہے۔ یہ فحش غلطی ہے۔ نوح (علیہ السلام) میں نہ جذبہ جاہلیت تھا اور نہ وہ بشری کمزوری میں مبتلا ہو کر معیار کمال سے نیچے گرے تھے۔ یہ نہ تو گناہ کبیرہ تھا اور نہ صغیرہ ، بلکہ صرف ایک اجتہادی لغزش تھی اور نبی سے اجتہادی لغزش ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) سے بھی ہوئی۔ ہر نبی سے کچھ نہ کچھ معمولی لغزشت ہوجاتی ہے جو کہ عام آدمیوں کے اعتبار سے گناہ ہی نہیں ہوتا لکین نبی کی ذات چونکہ بلند ہوتی ہے ، اس لیے وہاں معمولی سی بات پر بھی بڑی گرفت ہوتی ہے۔ ما تریدی (رح) کی توجہیہ امام ابو منصور ماتریدی (رح) امام ابوحنیفہ (رح) کے دو واسطوں سے شاگرد تھے۔ وہ تفسیر میں لکھتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کے ایمان کے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔ وہ آپ ہی کے گھر میں منافقوں کی طرح رہتا تھا مگر کافروں کے ساتھ ملا ہوا تھا ، بیوی کا بھی یہی حال تھا۔ یہ دونوں درپردہ کافروں کے ساتھ تھے مگر نوح (علیہ السلام) کو علم نہیں تھا کہ یہ حقیقت میں ایمان سے خالی ہیں۔ یہ بات قرین قیاس ہے کیونکہ نبی عالم الغیب تو ہوتا نہیں کہ اسے معلوم ہو کہ فلاں فلاں منافق آدمی ہیں۔ خود حضور ﷺ کو اللہ نے سورة توبہ میں فرمایا ہے۔ کہ مدینہ اور اردگرد میں کتنے منافق ایسے ہیں (آیت) ” لا تعلمھم نحن نعلمھم “ جن کو آپ نہیں جانتے بلکہ ہم انہیں جانتے ہیں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں آپ کی مجلس میں آتے ہیں اور بعض اوقات جہاد میں شریک ہوتے ہیں مگر جب تک وحی کے ذریعے اطلاع نہ دی جائے ان کا پتہ نہیں چلتا۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو بھی بیٹے کے کفر اور نفاق کا علم نہ ہو مگر اللہ نے اس معاملے میں سختی اس لیے کی کہ آپ کا بیٹا آپ کی دعوت کے باوجود آپ کے ساتھ کشتی میں سوار نہ ہوا اور نبی کی فراست بھی غیر معمولی ہوتی ہے تو آپ کو بیٹے کے کفر کا اندازہ ہوجانا چاہیے تھا اور خدا کی بارگاہ میں اس لیے دعا نہیں کرنی چاہیے تھی ، کیونکہ یہ بات خدا کی مرضی کے خلاف تھی۔ یہ نہ تو جذبہ جاہلیت تھا اور نہ نوح (علیہ السلام) اپنے مقام عصمت سے گرے تھے ، یہ تو چھوٹی سی لغزش تھی۔ نبی معصوم ہوتا ہے ، خدا اس سے گناہ نہیں سرزد ہونے دیتا بلکہ اسے گارنٹی حاصل ہوتی ہے۔ نبی خواہ خوشی کی حالت میں ہو یا غمی کی حالت میں یا غصے کی حالت میں ، اس کی ہر بات حق اور واجب التعمیل ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ میں جو کچھ زبان سے کہتا ہوں۔ وہ حق ہوتا ہے ، چاہے میں کوئی بات ہنسی مذاق میں ہی کیوں نہ کروں۔ تو امام ابو منصور ما تریدی (رح) کی توجیہ یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو علم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا کافر ہے۔ آپ سوال کر بیٹھے تو اللہ نے سخت ڈانٹ پلائی۔ آپ کے بلند مرتبہ پر فائز ہو نیکی وجہ سے اللہ نے اتنی سی لغزش بھی معاف نہ فرمائی۔ خود حضور ﷺ نے نابینا آدمی سے ذرا بےاعتنائی برتی تھی تو سورة عبس کی آیات نازل ہوگئیں آیت ” عبس وتولی ان جاء ہ الاعمی “ آپ نے ایک نابینا آدمی سے روگردانی کی۔ یہ کوئی گناہ نہیں تھا بلکہ ذرا سی بےتوجہی کی تو فورگرفت آگئی۔ شیخ الاسلام (رح) کی توجہیہ شیخ الاسلام (رح) فرماتے ہیں کہ اگر نوح (علیہ السلام) کو بیٹے کے کفر کا علم تھا تو پھر سوال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کو سمجھنا چاہتے تھے کہ اے پروردگار ! تیرا وعدہ تو یہ تھا کہ تیرے اہل کو بچا لوں گا مگر میرا بیٹا ڈوب رہا ہے ، مجھے خبر دے کہ اس کی حکمت کیا ہے۔ آپ کے سوال کرنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس کو کیوں غرق کیا یا اس کو ضرور ہی بچا لیا جائے۔ تا ہم شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ اگر حقیقت حال ہی معلوم کرنا مطلوب تھی ، تو بڑے آدمیوں کو پہلے مالک کی مرضی معلوم کرنی چاہیے کہ وہ ایسے سوال سے سے ناراض تو نہیں ہوگا ، مگر نوح (علیہ السلام) نے براہ راست بیٹے کے متعلق سوال کردیا جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند تھا ، اس لیے اس نے تنبیہ فرمائی۔ نوح (علیہ السلام) کو بیٹے کے کفر کے بارے میں علم نہیں تھا اور جس بات کے متعلق علم نہ ہو ، اس کو ابہام پر ہی رہنے دینا چاہیے تھا۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی چیز کو مخفی رکھنا چاہتا ہے اور اگر ایسی بات کے متعلق سوال ہوگا تو اللہ تعالیٰ ناپسند کرے گا۔ معافی کی درخواست جب نوح (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ بیٹے کے متعلق ان کا سوال اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آیا تو انہوں نے فورا رجوع کرلیا (آیت) ” قال رب انی اعوذ بک ان اسئلک ما لیس لی بہ علم “ اے پروردگار میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں کہ میں کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں۔ یہی آپ کے کمال کی علامت ہے جب آدم (علیہ السلام) کو اپنی لغزش کا احساس ہوا تو انہوں نے بھی فورا اقرار کرلیا (آیت) ” ربنا ظلمنا انفسنا “ اے پروردگار ! بیشک ہم نے نفسوں پر ظلم کیا۔ (آیت) ” وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین “ (اعراف) اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گے یہی عاجزی اور ابتہال نوح (علیہ السلام) نے اللہ کے سامنے کی ۔ (آیت) ” والا تغفرلی وترحمنی ان من الخسرین “ اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں فرمائے گا۔ تو میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوجائوں گا آپ نے یہ نہیں کہا کہ باری تعالیٰ ! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، بلکہ لغزش کی معافی طلب کرلی اور یہی عاجزی اللہ کے نزدیک سب سے بڑا کمال ہے۔
Top