Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Hud : 44
وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَقِيْلَ
: اور کہا گیا
يٰٓاَرْضُ
: اے زمین
ابْلَعِيْ
: نگل لے
مَآءَكِ
: اپنا پانی
وَيٰسَمَآءُ
: اور اے آسمان
اَقْلِعِيْ
: تھم جا
وَغِيْضَ
: اور خشک کردیا گیا
الْمَآءُ
: پانی
وَقُضِيَ
: اور پورا ہوچکا (تمام ہوگیا)
الْاَمْرُ
: کام
وَاسْتَوَتْ
: اور جا لگی
عَلَي الْجُوْدِيِّ
: جودی پہاڑ پر
وَقِيْلَ
: اور کہا گیا
بُعْدًا
: دوری
لِّلْقَوْمِ
: لوگوں کے لیے
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور حکم دیا گیا اے زمین اپنا پانی نگل لے، اور اے آسمان تھم جا، اور پانی اتار دیا گیا، اور معاملے کا فیصلہ ہوگیا، اور کشتی جودی پہاڑ پر جا لگی، اور اعلان کردیا گیا، رحمت سے دوری ہے ظالموں کی قوم کے لیے۔
وَقِیْلَ یٰٓاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ وَیٰسَمَآئُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآئُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (سورۃ ہود : 44) (اور حکم دیا گیا اے زمین اپنا پانی نگل لے، اور اے آسمان تھم جا، اور پانی اتار دیا گیا، اور معاملے کا فیصلہ ہوگیا، اور کشتی جودی پہاڑ پر جا لگی، اور اعلان کردیا گیا، رحمت سے دوری ہے ظالموں کی قوم کے لیے۔ ) ارض و سما کو احکام زمین کو حکم دیا گیا کہ اپنا پانی نگل جا اور آسمان سے کہا گیا کہ تھم جا اور بارش کو روک دے۔ بار ش کے رک جانے، زمین کے ابلنے والے چشموں کے ٹھہر جانے اور زمین کے پانی کو نگل جانے سے بھی زمین کی خشکی کا سامان نہیں ہوسکتا تھا اور مقصود یہ تھا کہ زمین پوری طرح خشک ہوجائے تاکہ رہائش کے قابل ہوسکے اور انسانی اور حیوانی غذائوں کے حصول کے لیے پیداوار دینے کی صلاحیت پیدا کرسکے جبکہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ پانی کو اسی قدر نگلتی ہے جو اس کی آبیاری کے لیے ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ پانی ضرورت سے زیادہ نگل لے تو دلدل بن جائے جہاں نہ انسانی آبادی ممکن ہو اور نہ کاشتکاری کے قابل رہے۔ اس لیے تیسرے جملے میں فرمایا کہ زمین خشک کردی گئی، اس کا پانی ختم کردیا گیا۔ یقینا اس کی یہی صورت رہی ہوگی کہ ضرورت کے مطابق زمین نے اس کو اپنے اندر جذب اور باقی ندی نالوں کے ذریعے دریائوں اور سمندروں میں پہنچا دیا گیا۔ اس طرح سے دونوں کام مکمل ہوگئے۔ عذاب کے ذریعے کافروں کی جڑ کاٹ دی گئی اور زمین کو خشک کرکے اہل ایمان کے بسنے کا امکان پیدا کردیا گیا۔ کیا طوفان عالمگیر تھا ؟ یہاں عام طور پر اہل علم نے یہ بحث چھیڑی ہے کہ طوفانِ نوح کیا صرف اس علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی یا ساری زمین اس کی لپیٹ میں آگئی تھی۔ باتیں دونوں طرح کی کہی گئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری زمین پر طوفان کے پھیل جانے کا کوئی ثبوت تاریخ کے پاس نہیں۔ ہمارے پاس ایسے واقعات کو جاننے کے لیے تین ہی ذرائع ہیں۔ (1) تاریخ، (2) آثارِ قدیمہ اور (3) طبقات الارض کا علم۔ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے۔ یہ زمانہ اگرچہ قبل از تاریخ کا ہے لیکن آسمانی کتابوں نے کم از کم انبیاء کی تاریخ کو کسی نہ کسی حد تک ضرور بیان کیا ہے۔ چناچہ بعض آسمانی کتابوں میں طوفانِ نوح کا تذکرہ مختلف حوالوں سے ملتا ہے لیکن کسی جگہ بھی اس کا ذکر نہیں کیا گیا کہ یہ طوفان پوری زمین پر آیا تھا۔ البتہ قرآن کریم کے اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مرکز وہی علاقہ ہے جہاں قوم نوح آباد تھی اور وہ دجلہ اور فرات کا دو آبہ ہے اور دوبارہ اسی سرزمین پر انسانوں کی آبادی ہوئی کیونکہ جودی پہاڑ اسی علاقے میں آباد ہے۔ جہاں تک آثار قدیمہ کا تعلق ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں طوفان کے آثار جابجا ملتے ہیں اور جب بھی کہیں کھدائی ہوئی ہے، کچھ نہ کچھ ایسے نوادرات ضرور ملے ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے، لیکن دنیا کے دوسرے علاقوں میں کہیں بھی ایسے طوفان کی علامات نہیں ملتیں جسے عالمگیر کہا جاسکتا۔ اسی طرح طبقات الارض کے ماہرین نے ہمیشہ اسی علاقے میں ایک عظیم طوفان کی خبر دی ہے اور دوسرے کسی علاقے میں اس کے شواہد آج تک میسر نہیں آسکے۔ اس لیے یہ بات گمان غالب سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ طوفان عالمگیر طوفان نہ تھا۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت کی تمام انسانی آبادی اس کا ہدف تھی۔ اس لیے اسے عالمگیر بھی کہا جاسکتا ہے۔ کشتی کہاں رکی ؟ تورات کی شہادت کے مطابق کشتی کوہ ارارات پر رکی جبکہ قرآن کریم نے متعین طور پر جودی پہاڑ کا نام دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ اراراط جس طرح پہاڑ کا نام ہے اسی طرح ایک سلسلہ کوہستان کا نام بھی ہے جو آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی سلسلہِ کوہستان کا ایک پہاڑ جودی بھی ہے جو موصل اور جزیرہ ابن عمر کے پاس ہے اور اس پر نزول قرآن کریم سے پہلے کی بعض تاریخی کتب شہادت دیتی ہیں۔ ارسطو کے ایک شاگرد نے اپنی تاریخ میں اس کی تائید کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری سے تقریباً اڑھائی سو سال پہلے لکھی جانے والی ایک کتاب میں بھی اسی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ موصل اور اس کے اڑوس پڑوس میں رہنے والے لوگ اب تک اپنے پاس اس کشتی کے ٹوٹے ہوئے کچھ ٹکڑے رکھتے ہیں اور جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو ان ٹکڑوں کو پانی میں بھگو کر تبرک کے طور پر پلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بیماروں کو شفا دیتے ہیں۔ بعض اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دس مہینے تک یہ کشتی پانی کی لہروں پر تیرتی رہی۔ اس کے بعد طوفان رکا، پانی اترا اور کشتی جودی پہاڑ پر رکنے کے قابل ہوسکی۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانا ہے کہ کشتی کتنا عرصہ پانی کی سطح پر رہی لیکن یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی بلندی اس قدر تھی کہ آبادیوں کا تو کیا ذکر پہاڑ بھی پانی میں چھپ گئے تھے۔ پانی کچھ کم ہوا تو کشتی جودی پہاڑ پر رک سکی۔ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْن َکا مفہوم اس طرح سے جب طوفانِ نوح کا مقصد پورا ہوگیا، کفر اپنے برے انجام کو پہنچا اور اہل ایمان بچا لیے گئے تو تب فرمایا : دوری ہو ظالموں کی قوم کے لیے، یہ اظہار نفرت و لعنت کا جملہ ہے۔ دوسروں لفظوں میں یوں کہا گیا ” خس کم جہاں پاک ! “ یہاں ” بُعد “ کا لفظ لعنت کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ لعنت اللہ کی رحمت سے دوری کو کہتے ہیں۔ اتنا بڑا حادثہ کہ لاکھوں انسان لقمہ آب ہوگئے، نسلیں برباد کردی گئیں۔ بجائے اس کے کہ ان کی ہلاکت پر تأسف کا اظہار کیا جاتا، اظہارِ نفرت و لعنت کیا جارہا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی علاقے میں انسانیت کے قاتل جمع ہوجائیں جن سے ہر وقت انسانوں کی جانوں کو خطرہ ہو اور جب بھی ان کا بس چلے تو وہ زمین کو فساد سے بھر دیتے ہوں تو اگر کبھی حکومت کو ان پر قابو مل جاتا ہے یا وہ ان پر قابو پانے کے لیے طاقت استعمال کرتی ہے تو اس میں وہ تمام مارے جاتے ہیں تو انتہائی رحم دل اور سنجیدہ جرنیل بھی ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہی کہتا ہے، خس کم جہاں پاک !۔ اللہ کی نگاہ میں سب سے قابل نفرت چیز کفر اور شرک ہے۔ یعنی اللہ سے بغاوت اور اس کی نافرمانی۔ جو قوم ان دونوں جرائم میں تمام حدود سے تجاوز کرجاتی ہے وہ زمین پر رہنے کے قابل نہیں رہتی۔ اس کا وجود ایک متعفن لاش کی طرح ہے جسے کسی بھی گڑھے یا بند کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ایک اہم حقیقت ایک نظر پلٹ کر اس آیت سے سابقہ آیت پر دوبارہ ڈال لیجئے جس میں یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) جیسا عظیم باپ اپنے ناہنجار بیٹے کو ایک پہاڑ کے دامن میں کھڑا دیکھ کر شفقت پدری سے مجبور ہو کر کہتا ہے کہ بیٹا آئو ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ، لیکن وہ ناہنجار بیٹاتباہی و بربادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اپنی سرکشی سے باز نہ آیا اور کہا کہ میں آپ کے ساتھ سوار ہونا نہیں چاہتا اور مجھے اس طوفان کی بھی کوئی پرواہ نہیں، میں ان پہاڑوں میں سے بھی کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور وہ مجھے بچا لے گا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ گفتگو پسند نہیں آئی، چناچہ ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور بیٹا چشم زدن میں موجوں کی نذر ہوگیا۔ بیٹا کیسا بھی ناہنجار ہو اس کی موت باپ کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے دل پر نہ جانے کیسی قیامت گزری ہوگی۔ چناچہ انھوں نے اسے بچانے کے لیے آخری کوشش کے طور پر اللہ سے شکایت بھی کی اور التجا بھی۔ لیکن ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ اللہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی شکایت اور التجا کا ذکر بعد میں کیا، لیکن زمین و آسمان کو جو احکام دیئے گئے اور جس طرح دوبارہ انسانی آبادی کے امکانات پیدا کیے گئے اور اس معذب قوم پر جس طرح نفرت و لعنت کا اطہار فرمایا گیا یہ سب باتیں پہلے کہی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک پیغمبر کے جوان بیٹے کا غرق آب ہوجانا ایک حادثہ سہی لیکن وہ ایسا بڑا حادثہ نہیں کہ اسے بطور خاص ذکر کیا جائے۔ اگر وہ بیٹا صاحب ایمان ہوتا تو اولاً تو ایسے حادثے کا کوئی امکان نہ تھا اور اگر کبھی کسی حکمت کے تحت یہ حادثہ وجود میں آہی جاتا تو اس کو جس ہمدردی اور دکھ کے ساتھ ذکر کیا جاتا اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں اس کے ذکر کو روک کر سلسلہ سخن میں دوسری باتوں کا لے آنا یہ اشارہ کردینے کے لیے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اصل قدر و قیمت ایمان کی ہے۔ وہ بلال حبشی کو نصیب ہوجائے تو اس کی سرفرازی اسے کعبہ کی چھت پر کھڑا کردیتی ہے لیکن وہ شخص یا وہ قوم جو اللہ سے بغاوت کرتی ہے ان میں چاہے پیغمبر کا بیٹا کیوں نہ ہو اس کی قدر و قیمت اتنی بھی نہیں کہ سلسلہ بیان میں اسے مناسب جگہ دی جائے۔ یہ تو ظالموں کا گروہ ہے جنھوں نے نہ صرف اپنے اوپر ظلم ڈھایا بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو بھی ظلم کی نذر کردیا۔ اس لیے ان سے اظہارِ نفرت کرتے ہوئے فرمایا کہ لعنت ہے ایسی ظالموں کی قوم کے لیے۔ ظلم کا مفہوم ہے ہر چیز جس مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے اسے اس کے مصرف سے ہٹا کر دوسرے مصرف میں صرف کردینا اور اس کا جو مقصدمتعین کیا گیا ہے اسے اس مقصد سے دور کردینا۔ اللہ نے انسان کو سر اس لیے دیا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے جھکے۔ جب اسے غیر خدا کے سامنے جھکایا جاتا ہے تو سر اس ظلم پر چیختا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صلاحیتیں اس لیے دی ہیں کہ وہ اس کے دین کی سربلندی میں کام آئیں۔ گردن اس لیے دی ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے خم ہو اور بوقت ضرورت اسی کے راستے میں کٹے۔ پسینہ اس لیے ہے کہ وہ اللہ کے متعین راستوں میں بہے۔ نعمتیں اس لیے دی گئی ہیں کہ ان کا شکر بجا لا کر ان کا صحیح حق دیا جائے۔ جب بھی ان جگہوں سے انحراف ہوتا ہے تو ظلم کا راستہ کھل جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی عظمت کھو دیتا ہے۔ وہ اپنی حیثیت گم کرکے وہاں جا کھڑا ہوتا ہے جو اس کے دشمنوں اور اس کے چاکروں کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی۔ اقبال نے شاید ایسے ہی تأثر کے تحت کہا تھا : پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے تو تن تیرا نہ من
Top