Ruh-ul-Quran - Hud : 44
وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا يٰٓاَرْضُ : اے زمین ابْلَعِيْ : نگل لے مَآءَكِ : اپنا پانی وَيٰسَمَآءُ : اور اے آسمان اَقْلِعِيْ : تھم جا وَغِيْضَ : اور خشک کردیا گیا الْمَآءُ : پانی وَقُضِيَ : اور پورا ہوچکا (تمام ہوگیا) الْاَمْرُ : کام وَاسْتَوَتْ : اور جا لگی عَلَي الْجُوْدِيِّ : جودی پہاڑ پر وَقِيْلَ : اور کہا گیا بُعْدًا : دوری لِّلْقَوْمِ : لوگوں کے لیے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور حکم دیا گیا اے زمین اپنا پانی نگل لے، اور اے آسمان تھم جا، اور پانی اتار دیا گیا، اور معاملے کا فیصلہ ہوگیا، اور کشتی جودی پہاڑ پر جا لگی، اور اعلان کردیا گیا، رحمت سے دوری ہے ظالموں کی قوم کے لیے۔
وَقِیْلَ یٰٓاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ وَیٰسَمَآئُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآئُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (سورۃ ہود : 44) (اور حکم دیا گیا اے زمین اپنا پانی نگل لے، اور اے آسمان تھم جا، اور پانی اتار دیا گیا، اور معاملے کا فیصلہ ہوگیا، اور کشتی جودی پہاڑ پر جا لگی، اور اعلان کردیا گیا، رحمت سے دوری ہے ظالموں کی قوم کے لیے۔ ) ارض و سما کو احکام زمین کو حکم دیا گیا کہ اپنا پانی نگل جا اور آسمان سے کہا گیا کہ تھم جا اور بارش کو روک دے۔ بار ش کے رک جانے، زمین کے ابلنے والے چشموں کے ٹھہر جانے اور زمین کے پانی کو نگل جانے سے بھی زمین کی خشکی کا سامان نہیں ہوسکتا تھا اور مقصود یہ تھا کہ زمین پوری طرح خشک ہوجائے تاکہ رہائش کے قابل ہوسکے اور انسانی اور حیوانی غذائوں کے حصول کے لیے پیداوار دینے کی صلاحیت پیدا کرسکے جبکہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ پانی کو اسی قدر نگلتی ہے جو اس کی آبیاری کے لیے ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ پانی ضرورت سے زیادہ نگل لے تو دلدل بن جائے جہاں نہ انسانی آبادی ممکن ہو اور نہ کاشتکاری کے قابل رہے۔ اس لیے تیسرے جملے میں فرمایا کہ زمین خشک کردی گئی، اس کا پانی ختم کردیا گیا۔ یقینا اس کی یہی صورت رہی ہوگی کہ ضرورت کے مطابق زمین نے اس کو اپنے اندر جذب اور باقی ندی نالوں کے ذریعے دریائوں اور سمندروں میں پہنچا دیا گیا۔ اس طرح سے دونوں کام مکمل ہوگئے۔ عذاب کے ذریعے کافروں کی جڑ کاٹ دی گئی اور زمین کو خشک کرکے اہل ایمان کے بسنے کا امکان پیدا کردیا گیا۔ کیا طوفان عالمگیر تھا ؟ یہاں عام طور پر اہل علم نے یہ بحث چھیڑی ہے کہ طوفانِ نوح کیا صرف اس علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی یا ساری زمین اس کی لپیٹ میں آگئی تھی۔ باتیں دونوں طرح کی کہی گئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری زمین پر طوفان کے پھیل جانے کا کوئی ثبوت تاریخ کے پاس نہیں۔ ہمارے پاس ایسے واقعات کو جاننے کے لیے تین ہی ذرائع ہیں۔ (1) تاریخ، (2) آثارِ قدیمہ اور (3) طبقات الارض کا علم۔ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے۔ یہ زمانہ اگرچہ قبل از تاریخ کا ہے لیکن آسمانی کتابوں نے کم از کم انبیاء کی تاریخ کو کسی نہ کسی حد تک ضرور بیان کیا ہے۔ چناچہ بعض آسمانی کتابوں میں طوفانِ نوح کا تذکرہ مختلف حوالوں سے ملتا ہے لیکن کسی جگہ بھی اس کا ذکر نہیں کیا گیا کہ یہ طوفان پوری زمین پر آیا تھا۔ البتہ قرآن کریم کے اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مرکز وہی علاقہ ہے جہاں قوم نوح آباد تھی اور وہ دجلہ اور فرات کا دو آبہ ہے اور دوبارہ اسی سرزمین پر انسانوں کی آبادی ہوئی کیونکہ جودی پہاڑ اسی علاقے میں آباد ہے۔ جہاں تک آثار قدیمہ کا تعلق ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں طوفان کے آثار جابجا ملتے ہیں اور جب بھی کہیں کھدائی ہوئی ہے، کچھ نہ کچھ ایسے نوادرات ضرور ملے ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے، لیکن دنیا کے دوسرے علاقوں میں کہیں بھی ایسے طوفان کی علامات نہیں ملتیں جسے عالمگیر کہا جاسکتا۔ اسی طرح طبقات الارض کے ماہرین نے ہمیشہ اسی علاقے میں ایک عظیم طوفان کی خبر دی ہے اور دوسرے کسی علاقے میں اس کے شواہد آج تک میسر نہیں آسکے۔ اس لیے یہ بات گمان غالب سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ طوفان عالمگیر طوفان نہ تھا۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت کی تمام انسانی آبادی اس کا ہدف تھی۔ اس لیے اسے عالمگیر بھی کہا جاسکتا ہے۔ کشتی کہاں رکی ؟ تورات کی شہادت کے مطابق کشتی کوہ ارارات پر رکی جبکہ قرآن کریم نے متعین طور پر جودی پہاڑ کا نام دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ اراراط جس طرح پہاڑ کا نام ہے اسی طرح ایک سلسلہ کوہستان کا نام بھی ہے جو آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی سلسلہِ کوہستان کا ایک پہاڑ جودی بھی ہے جو موصل اور جزیرہ ابن عمر کے پاس ہے اور اس پر نزول قرآن کریم سے پہلے کی بعض تاریخی کتب شہادت دیتی ہیں۔ ارسطو کے ایک شاگرد نے اپنی تاریخ میں اس کی تائید کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری سے تقریباً اڑھائی سو سال پہلے لکھی جانے والی ایک کتاب میں بھی اسی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ موصل اور اس کے اڑوس پڑوس میں رہنے والے لوگ اب تک اپنے پاس اس کشتی کے ٹوٹے ہوئے کچھ ٹکڑے رکھتے ہیں اور جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو ان ٹکڑوں کو پانی میں بھگو کر تبرک کے طور پر پلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بیماروں کو شفا دیتے ہیں۔ بعض اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دس مہینے تک یہ کشتی پانی کی لہروں پر تیرتی رہی۔ اس کے بعد طوفان رکا، پانی اترا اور کشتی جودی پہاڑ پر رکنے کے قابل ہوسکی۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانا ہے کہ کشتی کتنا عرصہ پانی کی سطح پر رہی لیکن یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی بلندی اس قدر تھی کہ آبادیوں کا تو کیا ذکر پہاڑ بھی پانی میں چھپ گئے تھے۔ پانی کچھ کم ہوا تو کشتی جودی پہاڑ پر رک سکی۔ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْن َکا مفہوم اس طرح سے جب طوفانِ نوح کا مقصد پورا ہوگیا، کفر اپنے برے انجام کو پہنچا اور اہل ایمان بچا لیے گئے تو تب فرمایا : دوری ہو ظالموں کی قوم کے لیے، یہ اظہار نفرت و لعنت کا جملہ ہے۔ دوسروں لفظوں میں یوں کہا گیا ” خس کم جہاں پاک ! “ یہاں ” بُعد “ کا لفظ لعنت کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ لعنت اللہ کی رحمت سے دوری کو کہتے ہیں۔ اتنا بڑا حادثہ کہ لاکھوں انسان لقمہ آب ہوگئے، نسلیں برباد کردی گئیں۔ بجائے اس کے کہ ان کی ہلاکت پر تأسف کا اظہار کیا جاتا، اظہارِ نفرت و لعنت کیا جارہا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی علاقے میں انسانیت کے قاتل جمع ہوجائیں جن سے ہر وقت انسانوں کی جانوں کو خطرہ ہو اور جب بھی ان کا بس چلے تو وہ زمین کو فساد سے بھر دیتے ہوں تو اگر کبھی حکومت کو ان پر قابو مل جاتا ہے یا وہ ان پر قابو پانے کے لیے طاقت استعمال کرتی ہے تو اس میں وہ تمام مارے جاتے ہیں تو انتہائی رحم دل اور سنجیدہ جرنیل بھی ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہی کہتا ہے، خس کم جہاں پاک !۔ اللہ کی نگاہ میں سب سے قابل نفرت چیز کفر اور شرک ہے۔ یعنی اللہ سے بغاوت اور اس کی نافرمانی۔ جو قوم ان دونوں جرائم میں تمام حدود سے تجاوز کرجاتی ہے وہ زمین پر رہنے کے قابل نہیں رہتی۔ اس کا وجود ایک متعفن لاش کی طرح ہے جسے کسی بھی گڑھے یا بند کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ایک اہم حقیقت ایک نظر پلٹ کر اس آیت سے سابقہ آیت پر دوبارہ ڈال لیجئے جس میں یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) جیسا عظیم باپ اپنے ناہنجار بیٹے کو ایک پہاڑ کے دامن میں کھڑا دیکھ کر شفقت پدری سے مجبور ہو کر کہتا ہے کہ بیٹا آئو ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ، لیکن وہ ناہنجار بیٹاتباہی و بربادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اپنی سرکشی سے باز نہ آیا اور کہا کہ میں آپ کے ساتھ سوار ہونا نہیں چاہتا اور مجھے اس طوفان کی بھی کوئی پرواہ نہیں، میں ان پہاڑوں میں سے بھی کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور وہ مجھے بچا لے گا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ گفتگو پسند نہیں آئی، چناچہ ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور بیٹا چشم زدن میں موجوں کی نذر ہوگیا۔ بیٹا کیسا بھی ناہنجار ہو اس کی موت باپ کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے دل پر نہ جانے کیسی قیامت گزری ہوگی۔ چناچہ انھوں نے اسے بچانے کے لیے آخری کوشش کے طور پر اللہ سے شکایت بھی کی اور التجا بھی۔ لیکن ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ اللہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی شکایت اور التجا کا ذکر بعد میں کیا، لیکن زمین و آسمان کو جو احکام دیئے گئے اور جس طرح دوبارہ انسانی آبادی کے امکانات پیدا کیے گئے اور اس معذب قوم پر جس طرح نفرت و لعنت کا اطہار فرمایا گیا یہ سب باتیں پہلے کہی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک پیغمبر کے جوان بیٹے کا غرق آب ہوجانا ایک حادثہ سہی لیکن وہ ایسا بڑا حادثہ نہیں کہ اسے بطور خاص ذکر کیا جائے۔ اگر وہ بیٹا صاحب ایمان ہوتا تو اولاً تو ایسے حادثے کا کوئی امکان نہ تھا اور اگر کبھی کسی حکمت کے تحت یہ حادثہ وجود میں آہی جاتا تو اس کو جس ہمدردی اور دکھ کے ساتھ ذکر کیا جاتا اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں اس کے ذکر کو روک کر سلسلہ سخن میں دوسری باتوں کا لے آنا یہ اشارہ کردینے کے لیے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اصل قدر و قیمت ایمان کی ہے۔ وہ بلال حبشی کو نصیب ہوجائے تو اس کی سرفرازی اسے کعبہ کی چھت پر کھڑا کردیتی ہے لیکن وہ شخص یا وہ قوم جو اللہ سے بغاوت کرتی ہے ان میں چاہے پیغمبر کا بیٹا کیوں نہ ہو اس کی قدر و قیمت اتنی بھی نہیں کہ سلسلہ بیان میں اسے مناسب جگہ دی جائے۔ یہ تو ظالموں کا گروہ ہے جنھوں نے نہ صرف اپنے اوپر ظلم ڈھایا بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو بھی ظلم کی نذر کردیا۔ اس لیے ان سے اظہارِ نفرت کرتے ہوئے فرمایا کہ لعنت ہے ایسی ظالموں کی قوم کے لیے۔ ظلم کا مفہوم ہے ہر چیز جس مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے اسے اس کے مصرف سے ہٹا کر دوسرے مصرف میں صرف کردینا اور اس کا جو مقصدمتعین کیا گیا ہے اسے اس مقصد سے دور کردینا۔ اللہ نے انسان کو سر اس لیے دیا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے جھکے۔ جب اسے غیر خدا کے سامنے جھکایا جاتا ہے تو سر اس ظلم پر چیختا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صلاحیتیں اس لیے دی ہیں کہ وہ اس کے دین کی سربلندی میں کام آئیں۔ گردن اس لیے دی ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے خم ہو اور بوقت ضرورت اسی کے راستے میں کٹے۔ پسینہ اس لیے ہے کہ وہ اللہ کے متعین راستوں میں بہے۔ نعمتیں اس لیے دی گئی ہیں کہ ان کا شکر بجا لا کر ان کا صحیح حق دیا جائے۔ جب بھی ان جگہوں سے انحراف ہوتا ہے تو ظلم کا راستہ کھل جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی عظمت کھو دیتا ہے۔ وہ اپنی حیثیت گم کرکے وہاں جا کھڑا ہوتا ہے جو اس کے دشمنوں اور اس کے چاکروں کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی۔ اقبال نے شاید ایسے ہی تأثر کے تحت کہا تھا : پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے تو تن تیرا نہ من
Top