Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 13
لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِیْهِ وَ مَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْئَلُوْنَ
لَا تَرْكُضُوْا : تم مت بھاگو وَارْجِعُوْٓا : اور لوٹ جاؤ اِلٰى : طرف مَآ : جو اُتْرِفْتُمْ : تم آسائش دئیے گئے فِيْهِ : اس میں وَمَسٰكِنِكُمْ : اور اپنے گھر (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُسْئَلُوْنَ : تمہاری پوچھ گچھ ہو
مت بھاگو اور ان چیزوں کی طرف جن میں تم عیش میں پڑے ہوئے تھے اور اپنے گھروں کی طرف واپس آجاؤ تاکہ تم سے سوال کیا جائے
(لاَتَرْکُضُوْا) جو فرمایا اس سے پہلے قیل لھم حذف ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ جب وہ لوگ عذاب دیکھ کر بھاگنے لگے تو ان سے عذاب کے فرشتوں نے یا ان اہل ایمان نے جو وہاں موجود تھے بطور استہزا اور تمسخریوں کہا کہ ٹھہرو کہاں دوڑتے ہو۔ تمہیں تو اپنی نعمت اور دولت عیش و عشرت پر بڑا ناز تھا۔ اپنے گھروں کو مزین کر رکھا تھا اور اونچے اونچے مکان بنا کر فخر کرتے تھے۔ آؤ دیکھو تمہارے مکان کہاں ہیں ؟ تم سے کوئی سوال کرنے والا سوال کرے تو اس کا جواب دو ۔ اب تو ظلم اور عیش و عشرت کا نتیجہ دیکھ لیا۔ بتاؤ کیا انجام ہوا ؟ (حَصِیْدًا خَامِدِیْنَ ) اس میں ہلاک شدہ لوگوں کا انجام بتایا ہے۔ حصید کٹی ہوئی کھیتی کو کہتے ہیں اور خامدین خمود سے مشتق ہے۔ جو بجھنے کے معنی میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہ ہلاک ہوئے تو ان کے اجسام کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے۔ جیسے کھیتی کاٹ کر ڈھیر لگا دیا جاتا ہے۔ اور ان کی شوں شاں اور کروفر ایسی ختم ہوگئی جیسے جلتی ہوئی شمعیں بجھا دی جائیں اور آگ جل کر ٹھنڈی ہوجائے اور ذرا بھی روشن نہ رہے۔ قرآن مجید میں یہاں مطلقاً یوں فرمایا ہے کہ ” کتنی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا “ کسی خاص بستی اور خاص علاقہ کا ذکر نہیں ہے اور عبرت دلانے کے لیے یہ اجمال کافی ہے۔ لیکن بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے اہل حضرموت مراد ہے جو یمن کا ایک علاقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک نبی بھیجا تھا۔ انہوں نے اسے جھٹلایا اور قتل کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے انہیں قتل کیا اور قید کیا۔ جب قتل کا سلسلہ جاری ہوا تو پشیمان ہوئے اور بھاگنے لگے تو ان سے کہا گیا (لَا تَرْکُضُوْا وَارْجِعُوْٓا) (الآیۃ) ۔ (معالم التنزیل، ص 240، ج 3)
Top