Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 13
لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِیْهِ وَ مَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْئَلُوْنَ
لَا تَرْكُضُوْا : تم مت بھاگو وَارْجِعُوْٓا : اور لوٹ جاؤ اِلٰى : طرف مَآ : جو اُتْرِفْتُمْ : تم آسائش دئیے گئے فِيْهِ : اس میں وَمَسٰكِنِكُمْ : اور اپنے گھر (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُسْئَلُوْنَ : تمہاری پوچھ گچھ ہو
اب بھاگتے کہاں ہو ؟ اپنی اس عیش و عشرت میں لوٹو اور انہی مکانوں میں شاید تم سے کچھ دریافت کیا جائے
ہم بھاگنے والوں کو آوازیں دیتے رہے کہ ذرا ٹھہر جاؤ اور ہماری بات سنو ! : 13۔ زبان حال کو جب زبان قال سے بیان کیا جائے تو اس کی یہی صورت ہوتی ہے اور یہی ہو سکتی ہے ۔ زیر نظر آیت میں ان کے حال کو زبان قال سے بیان کیا جارہا ہے ۔ فرمایا ہماری گرفت کی زبان ان کو آوازیں دیتی رہی کہ ذرا ٹھہر جاؤ اور بھاگو نہیں ‘ واپس آؤ تمہارے گھر تو ادھر ہیں تم کہاں بھاگے جا رہے ہو ؟ ابھی تو ہم نے تم سے بہت کچھ پوچھنا ہے ۔ یہ گویا ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے رب کریم صاحب جلال والاکرام کے رسولوں کا مذاق اڑایا تھا ۔ تمہیں تو ان گھروں پر بڑا ناز تھا اور ان کو ٹھیوں کاروں ‘ کارخانوں اور ملوں کے مالک تھے تو یہ سب کچھ چھوڑ کر بھاگ کر کدھر جا رہے ہو ، یہ تو وہ عذاب تھا جس کی وہ بڑی چاہت رکھتے تھے اور جس کے طلب کرنے میں وہ کچھ زیادہ ہی چھوٹ ہوچکے تھے آج اگر وہ عذاب نہیں یا اگر ہے تو کبھی کبھی اور کم ہے تو آخر وہ جس کو ہمارے ہاں موت کہا جاتا ہے اس کی آمد کا کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ کس طرح آجاتی ہے ، قرآن کریم میں ان سے اس طرح استفسار کیا گیا ہے کہ : غور کرو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے اور وہ بھی سمجھتا ہے کہ اب میں رخصت ہو رہا ہوں ہے بھی تمہیں بہت پیارا ‘ تمہارے پورے گھر کا انحصار بھی اس پر ہے اور تم ہو کہ تمہارے پیرومرشد بھی ہیں ‘ تم خود حکمران ہو اور تمہاری رشتہ داریاں بھی بڑے لوگوں سے ہیں تو پھر اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کو سارے مل کر بچا کیوں نہیں لیتے ؟ اس کو نکلنے کیوں دیتے ؟ اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو تو اس کو واپس کیوں نہیں لے آتے ؟ ہاں ! اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے تم سمجھو یا نہ سمجھو لیکن ہمارا کیا ہوا فیصلہ اٹل اور امٹ ہوتا ہے اس کو نہ کوئی ٹال سکتا ہے اور نہ ہی کوئی مٹا سکتا ہے ۔ ( سورة الواقعہ) فرمایا یہ وہ وقت ہے کہ ہماری طرف سے ان کو آواز دی جاتی ہے کہ ” اب تم اپنی عیش و عشرت میں لوٹو “ گویا یہ ان کے ساتھ بطور طنز کہا جارہا ہے کہ صاحب تمہارا گھر ‘ تمہارا کارخانہ ‘ تمہارا دفتر تو ادھر کو ہے اور تم بھولے کیوں جا رہے ہو مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں کسی شخص کو جو کچھ عطا ہوا اگر وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی بخشش وانعام سمجھے تو وہ اس کی رضا کے لئے کرے گا جو کچھ کرے گا اور اس طرح رخصت ہوگا تو بھی پورے اطمینان کے ساتھ کہ اس کی زندگی اور موت تو سب اللہ ہی کی رضا کی خاطر ہے لیکن جب وہ اس کو بخشش خداوندی اور عطاء الہی نہیں سمجھتا بلکہ آباء و اجداد کی میراث اور اپنی ذاتی ملکیت سمجھتا ہے تو وہ اس کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا لیکن پھر اچانک وہ وقت آجاتا ہے کہ وہ اس خواب غفلت سے اٹھتا یا جاگتا ہے نہیں بلکہ اٹھایا اور جگاتا ہے اور اس وقت وہ وہ سب کچھ دیکھتا ہے جس کا اس کو یقین نہیں تھا تو وحشت سے بھاگنے لگتا ہے لیکن اب بھاگے گا تو کیوں ؟ اور جائے گا تو کدھر کہ راستے تو سارے بند پڑے ہیں اور ٹیلی فون کی تاریں ہیں کہ کاٹ دی گئی ہیں اور روشنی ہے کہ بالکل بند کردی گئی ہے اور پیغام دینے والے جو پیغام لائے ہیں اس میں اب مہلت کا کوئی حکم شامل نہیں اور حکم ہے تو صرف یہ کہ اس کی زندگی کا کھیل ختم کر کے اس کی روح کو ایک دوسرے ہی مثالی جسم کے ساتھ جوڑ دو اس طرح بس کن ہوا تو فیکون ہوگیا اور اس طرح جس چیز کو ہم نے موت سے تعبیر کیا وہ مرنے والے کی برزخی زندگی کی پیدائش ہے جو اس قد آدم کے ساتھ ہوگئی جس قد آدم کے ساتھ وہ دنیا میں موجود تھا اور اجسام حشر اس کے سوا ہیں ۔
Top