Mufradat-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 13
لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِیْهِ وَ مَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْئَلُوْنَ
لَا تَرْكُضُوْا : تم مت بھاگو وَارْجِعُوْٓا : اور لوٹ جاؤ اِلٰى : طرف مَآ : جو اُتْرِفْتُمْ : تم آسائش دئیے گئے فِيْهِ : اس میں وَمَسٰكِنِكُمْ : اور اپنے گھر (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُسْئَلُوْنَ : تمہاری پوچھ گچھ ہو
مت بھاگو اور جن (نعمتوں) میں تم عیش و آسائش کرتے تھے ان کی اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ، شاید تم سے اس بارے میں دریافت کیا جائے
لَا تَرْكُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰى مَآ اُتْرِفْتُمْ فِيْہِ وَمَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْــَٔـلُوْنَ۝ 13 ركض الرَّكْضُ : الضّرب بالرِّجْل، فمتی نسب إلى الرّاكب فهو إعداء مرکوب، نحو : رَكَضْتُ الفرسَ ، ومتی نسب إلى الماشي فوطء الأرض، نحو قوله تعالی: ارْكُضْ بِرِجْلِكَ [ ص/ 42] ، وقوله : لا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلى ما أُتْرِفْتُمْ فِيهِ [ الأنبیاء/ 13] ، فنهوا عن الانهزام . ( ر ک ض ) الرکض اس کے اصل معنی ٹانگ کو حرکت دینے کے ہیں اگر سوار کے متعلق بولا جائے جیسے : ۔ رکضت الفرس تو اس کے معنی گھوڑے کو تیز دوڑانے کے لئے ایڑھ لگانا کے ہوتے ہیں اور پیادہ پا آدمی کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنی پاؤں کے ساتھ زمین کو روندنا کے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ [ ص/ 42] یعنی ٹانگ زمین پر مارو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلى ما أُتْرِفْتُمْ فِيهِ [ الأنبیاء/ 13] مت بھاگو اور سازو سامان ( دنیا کی ) طرف لوٹ جاؤ جس میں تم چین کرتے تھے ۔ میں انہیں شکست خوردہ ہو کر بھاگنے سے منع کیا گیا ہے ۔ ( اور یہ نہی تہدید اور تعجیز کے لئے ہے ) رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے ترف التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] ( ت ر ف) الترفۃ ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔
Top