Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 12
وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا
وَاِذْ : اور جب يَقُوْلُ : کہنے لگے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جن کے فِيْ قُلُوْبِهِمْ : دلوں میں مَّرَضٌ : روگ مَّا وَعَدَنَا : جو ہم سے وعدہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اِلَّا : مگر (صرف) غُرُوْرًا : دھوکہ دینا
اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے یوں کہہ رہے تھے کہ ہم سے اللہ نے اور اس کے رسول نے محض دھوکہ کا وعدہ کر رکھا ہے،
منافقین کی بد عہدی اور شرارتیں یہ نو آیات کا ترجمہ ہے جس میں منافقین کی قولی اور عملی غداری کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کی مخالفانہ اور بزدلانہ حرکتوں کو بیان کیا ہے۔ پہلی آیت میں یہ بتایا ہے کہ منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض تھا (جو ضعیف الاعتقاد تھے) انہوں نے یوں کہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ محض ایک دھوکہ ہے، مفسرین نے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خندق کھودتے وقت بشارت دی کہ تم حیرہ کے محل اور کسریٰ کے شہر اور یمن کے شہر اور روم کے محل فتح کرو گے، تو اس پر منافقین نے کہا لو دیکھ لو ! یہاں کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے، خندق کھودی جا رہی ہے، ذرا بھی باہر نہیں جاسکتے، اگر یہاں سے جائیں تو قتل ہوجائیں حال تو یہ ہے لیکن بشارتیں یوں دی جا رہی ہیں کہ یوں شہر فتح ہوں گے اور ایسے محلات پر قبضہ ہوگا، کچھ نہیں یہ سب دھوکہ ہی دھوکہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ ) نازل فرمائی۔ یہاں جو یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو رسول اللہ ﷺ کو دل سے مانتے ہی نہیں تھے پھر انہوں نے (مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ) کیسے کہا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منافق کا کوئی دین نہیں ہوتا وہ نہ دیکھی باتیں کرتا ہے، کیونکہ وہ لوگ بظاہر اسلام کے مدعی تھے اور حضرات صحابہ ؓ کے سامنے یہ بات کہہ رہے تھے اس لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا کہ آپ کو رسول ماننے کا دم بھریں لیکن انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف دھوکہ دہی کی نسبت کریں گے تو مسلمان ہمیں کیسے مسلمان مانیں گے۔
Top