Jawahir-ul-Quran - Al-Ahzaab : 12
وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا
وَاِذْ : اور جب يَقُوْلُ : کہنے لگے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جن کے فِيْ قُلُوْبِهِمْ : دلوں میں مَّرَضٌ : روگ مَّا وَعَدَنَا : جو ہم سے وعدہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اِلَّا : مگر (صرف) غُرُوْرًا : دھوکہ دینا
اور جب کہنے لگے منافق18 اور جن کے دلوں میں روگ ہے جو وعدہ کیا تھا ہم سے اللہ نے اور اس کے رسول نے سب فریب تھا
18:۔ واذ یقول الخ، یہ اذ زاغت پر معطوف ہے (روح) ۔ والذین فی قلوبھم مرض سے منافقین ہی مراد ہیں اور عطف تغایر و صف کی سے ہے۔ جوز ان یکون المراد بہم المنافقین انفسہم والعطف لتغایر الوصف (روح ج 21 ص 158) ۔ غزوہ خندق میں حضور ﷺ نے ایک پتھر کو توڑنے کے لیے اس کو ضرب لگائی تو اس میں سے بجلی کی سی روشنی اور چمک نمودار ہوئی۔ اس وقت آپ نے تمام صحابہ ؓ کو فارس، روم، یمن اور حبشہ کی فتح کی خوشخبری دی۔ یہ بات منافقین نے بھی سنی تو بطور استہزاء و تمسخر کہنے لگے۔ محمد ﷺ ہمیں قیصر و کسری کے خزانوں پا پر قابض ہونے کی خبر دیتا ہے۔ اور آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نہیں جاسکتے۔ اس لیے یہ ویسے ہی ہوائی اور جھوٹے وعدے ہیں۔ اس آیت میں منافقین کی اس شر انگیز گفتگو کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایسی باتوں منافقین کی غرض یہ تھی کہ مسلمانوں میں بد دلی پیدا ہو۔ اور ان کی حوصلہ شکنی ہو۔ وذلک ان طعمۃ بن ابیرق و معتب بن قشیر وجماعۃ نحو امن سبعین رجلا قالوا یوم الخندق کیف عیدنا کنوز کسری وقیصر ولا یستطیع احدنا ان یتبرز (قرطبی ج 14 ص 147) ۔ غرورا ای باطلا من القول (قرطبی) یعنی یہ وعدہ (عیاذا باللہ) سراسر جھوٹا ہے۔ قال الشیخ (رح) غرورا ای وعدا صاحب غرور ای کذب۔
Top