Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 12
وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا
وَاِذْ
: اور جب
يَقُوْلُ
: کہنے لگے
الْمُنٰفِقُوْنَ
: منافق (جمع)
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ جن کے
فِيْ قُلُوْبِهِمْ
: دلوں میں
مَّرَضٌ
: روگ
مَّا وَعَدَنَا
: جو ہم سے وعدہ کیا
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَسُوْلُهٗٓ
: اور اس کا رسول
اِلَّا
: مگر (صرف)
غُرُوْرًا
: دھوکہ دینا
اور جب کہنے لگے منافق اور جن کے دلوں میں روگ ہے جو وعدہ کیا تھا ہم سے اللہ نے اور اس کے رسول نے سب فریب تھا
منافقین کی طعنہ زنی اور مسلمانوں کا بےنظیر یقین ایمانی
اس وقت جو منافقین خندق کی کھدائی میں شامل تھے، وہ کہنے لگے کہ تمہیں محمد ﷺ کی بات پر حیرت و تعجب نہیں ہوتا۔ وہ تمہیں کیسے باطل اور بےبنیاد وعدے سنا رہے ہیں کہ یثرب میں خندق کی گہرائی کے اندر انہیں حیرہ اور مدائن کسریٰ کے محلات نظر آ رہے ہیں، اور یہ کہ تم لوگ ان کو فتح کرو گے۔ ذرا اپنے حال کو تو دیکھو کہ تمہیں اپنے تن بدن کا تو ہوش نہیں، پیشاب پاخانے کی ضرورت پوری کرنے کی مہلت نہیں، تم ہو جو کسریٰ وغیرہ کے ملک کو فتح کرو گے۔ اس واقعہ پر آیات مذکور الصدر میں یہ نازل ہوا (آیت) اذایقول المنفقون والذین فی قلوبہم مرض ما وعدنا اللہ و رسولہ الاغروراً ، اس آیت میں الذین فی قلوبہم مرض میں بھی انہی منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جن کے دلوں میں نفاق کا مرض چھپا ہوا تھا۔
غور کیجئے کہ اس وقت مسلمانوں کے ایمان اور رسول اللہ ﷺ کی خبر پر پورے یقین کا کیسا امتحان تھا کہ ہر طرف سے کفار کے نرغہ اور خطرے میں ہیں، خندق کھودنے کے لئے مزدور اور خادم نہیں، خود ہی محنت ایسی حالت میں برداشت کر رہے ہیں کہ سخت سردی نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ بظاہر اسباب اپنے بچاؤ اور بقاء پر یقین کرنا بھی آسان نہیں، دنیا کی عظیم سلطنت روم وکسریٰ کی فتوحات کی خوش خبری پر یقین کس طرح ہو ؟ مگر ایمان کی قیمت سب اعمال سے زیادہ اسی بنا پر ہے کہ اسباب و حالات کے سراسر خلاف ہونے کے وقت بھی ان کو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد میں کوئی شک وشبہ پیدا نہ ہوا۔
واقعہ مذکورہ میں امت کے لئے خاص ہدایت کہ بڑوں کو چھوٹوں کی ہر تکلیف ومشقت میں شامل رہنا چاہئے
ایسے جاں نثار خادم تھے جو کسی حال میں یہ نہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ خود بھی اس مزدور کی محنت شاقہ میں ان کے شریک ہوں۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کی دل جوئی اور امت کی تعلیم کے لئے اس محنت و مزدوری میں برابر کا حصہ لیا۔ صحابہ کرام کی جانثاری، آپ کے اوصاف کمال اور نبوت و رسالت کی بنیاد پر تو تھی ہی، مگر ظاہر اسباب میں ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ہر محنت و مشقت اور تنگی و تکلیف میں آپ سب عوام کی طرح ان میں شریک ہوتے تھے۔ حاکم و محکوم، بادشاہ و رعیت اور صاحب اقتدار عوام کی تفریق کا کوئی تصور وہاں نہ پیدا ہوتا۔ اور جب سے مخلوق اسلام نے اس سنت کو ترک کیا اس وقت سے یہ تفرقے پھوٹے، اور طرح طرح کے فتنے اپنے دامن میں لائے۔
مشکلات پر عبور حاصل کرنے کا نسخہ
واقعہ مذکورہ میں اس ناقابل تسخیر چٹان پر ضرب لگانے کے ساتھ آیت قرآن (آیت) تمت کلمة ربک صدقاً وعدلاً لا مبدل لکلمة تلاوت فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ کسی مشکل کو حل کرنے کے لئے اس آیت کی تلاوت ایک مجرب نسخہ ہے۔
صحابہ کرام کا ایثار اور تعاون و تناصر
اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ خندق کی کھدائی کے لئے ہر چالیس گز پر دس آدمی مامور تھے، مگر یہ ظاہر ہے کہ بعض لوگ قوی اور جلد کام کرلینے والے ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام میں سے جن حضرات کا اپنا حصہ کھدائی کا پورا ہوجاتا تو یہ سمجھ کر خالی نہ بیٹھتے تھے کہ ہماری ڈیوٹی پوری ہوگئی، بلکہ دوسرے صحابہ جن کا حصہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا ان کی مدد کرتے تھے۔ (قرطبی، مظہری)
ساڑھے تین میل لمبی خندق چھ دن میں مکمل ہوگئی
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ چھ روز میں سامنے آ گیا، کہ اتنی طویل اور چوڑی اور گہری خندق کی چھ روز میں تکمیل ہوگئی۔ (مظہری)
حضرت جابر کی دعوت میں ایک کھلا ہوا معجزہ
اسی خندق کی کھدائی کے دوران وہ مشہور واقعہ پیش آیا کہ ایک روز حضرت جابر نے آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر یہ محسوس کیا کہ بھوک کے سبب آپ متاثر ہو رہے ہیں اپنی اہلیہ سے جا کر کہا کہ تمہارے پاس کچھ ہو تو پکا لو، حضور ﷺ پر بھوک کا اثر دیکھا نہیں جاتا۔ اہلیہ نے بتلایا کہ ہمارے گھر میں ایک صاع بھر جو رکھے ہیں میں ان کو پیس کر آٹا بناتی ہوں۔ ایک صاع ہمارے وزن کے اعتبار سے تقریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے۔ اہلیہ پیسنے پکانے میں لگی، گھر میں ایک بکری کا بچہ تھا حضرت جابر نے اس کو ذبح کر کے گوشت تیار کیا اور آنحضرت ﷺ کو بلانے کے لئے چلے۔ تو اہلیہ نے پکار کر کہا کہ دیکھئے حضور ﷺ کے ساتھ بہت بڑا مجمع صحابہ کا ہے، صرف حضور ﷺ کو کسی طرح تنہا بلا لائیں، مجھے رسوا نہ کیجئے کہ صحابہ کرام کا بڑا مجمع چلا جائے۔ حضرت جابر نے آنحضرت ﷺ سے پوری حقیقت حال عرض کردی کہ صرف اتنا کھانا ہے، مگر آپ ﷺ نے پورے لشکر میں اعلان فرما دیا کہ چلو جابر کے گھر دعوت ہے۔ حضرت جابر حیران تھے۔ گھر پہنچے تو اہلیہ نے سخت پریشانی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ آپ نے آنحضرت ﷺ کو اصل حقیقت اور کھانے کی مقدار بتلا دی تھی ؟ جابر نے فرمایا کہ ہاں میں بتلا چکا ہوں تو اہلیہ محترمہ مطمئن ہوئیں کہ پھر ہمیں کچھ فکر نہیں، حضور ﷺ مالک ہیں جس طرح چاہیں کریں۔
واقعہ کی تفصیل اس جگہ غیر ضروری ہے، اتنا نتیجہ معلوم کرلینا کافی ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے روٹی اور سالن سب کو دینے اور کھلانے کا اہتمام فرمایا، اور پورے لشکر نے شکم سیر ہو کر کھایا۔ اور حضرت جابر فرماتے ہیں کہ سب مجمع کے فارغ ہونے کے بعد بھی نہ ہماری ہنڈیا میں کچھ گوشت کم نظر آتا تھا اور نہ گوندھے ہوئے آٹے میں کوئی کمی معلوم ہوتی تھی۔ ہم سب گھروالوں نے بھی شکم سیر ہو کر کھایا باقی پڑوسیوں میں تقسیم کردیا۔
اس طرح چھ روز میں جب خندق سے فراغت ہوگئی تو احزاب کا لشکر آپہنچا، اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام نے جبل سلع کو اپنی پشت کی طرف رکھ کر فوج کی صف بندی کردی۔
یہود بنی قریظہ کی عہد شکنی اور احزاب کے ساتھ شرکت
اس وقت دس بارہ ہزار کے باسامان لشکر کے ساتھ تین ہزار بےسروسامان لوگوں کا مقابلہ بھی عقل و قیاس میں آنے کی چیز نہ تھی اس پر ایک اور نیا اضافہ ہوا کہ احزاب میں قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے جس نے سب کو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کی دشمنی پر جمع کرنے میں بڑا کام کیا تھا، مدینہ پہنچ کر یہود کے قبیلہ بنو قریظہ کو بھی اپنے ساتھ ملانے کا منصوبہ بنایا۔ بنو قریظہ اور رسول اللہ ﷺ کے مابین ایک صلح نامہ پر دستخط ہوچکے تھے اور معاہدہ مکمل ہو کر ایک دوسرے سے بےفکر تھے۔ بنو قریظہ کا سردار کعب بن اسد تھا۔ حیی بن اخطب اس کے پاس پہنچا۔ جب کعب کو اس کے آنے کی خبر ملی تو اپنے قلعہ کا دروازہ بند کرلیا کہ حیی اس تک نہ پہنچ سکے۔ مگر حیی بن اخطب نے آوازیں دیں اور دروازہ کھولنے پر اصرار کیا۔ کعب نے اندر ہی سے جواب دے دیا کہ ہم تو محمد ﷺ کے ساتھ صلح کرچکے ہیں، اور ہم نے آج تک ان کی طرف سے معاہدہ کی پابندی اور صدق و سچائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا، اس لئے ہم اس معاہدہ کے پابند ہیں، آپ کے ساتھ نہیں آسکتے۔ دیر تک حیی بن اخطب دروازہ کھولنے اور کعب سے باتیں کرنے پر اصرار کرتا رہا اور یہ اندر سے ہی انکار کرتا رہا۔ مگر بالآخر جب کعب کو بہت عار دلایا تو اس نے دروازہ کھول کر حیی کو بلایا اس نے بنو قریظہ کو وہ سبز باغ دکھائے کہ بالآخر کعب اس کی باتوں میں آ گیا اور احزاب میں شرکت کا وعدہ کرلیا۔ اور کعب نے جب اپنے قبیلہ کے دوسرے سرداروں کو یہ بات بتلائی تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ تم نے غضب کیا کہ مسلمانوں سے بلا وجہ عہد شکنی کی اور ان کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا۔ کعب بھی ان کی بات سے متاثر ہوا اور اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کیا۔ مگر اب بات اس کے قبضہ سے نکل چکی تھی اور بالآخر یہی عہد شکنی بنو قریظہ کی ہلاکت و بربادی کا سبب بنی جس کا ذکر آگے آئے گا۔
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کو اس کی اطلاع ملی تو اس وقت میں ان کی عہد شکنی سے سخت صدمہ پہنچا اور بہت بڑی فکر اس کی لاحق ہوگئی کہ احزاب کے راستہ پر تو خندق کھودی گئی تھی، مگر یہ لوگ تو مدینہ کے اندر تھے، ان سے بچاؤ کیسے ہو۔ قرآن کریم میں جو اس جملہ کے متعلق فرمایا ہے کہ لشکر احزاب کے کفار تم پر چڑھ آئے تھے (آیت) من فوقکم ومن اسفل منکم اس کی تفسیر میں بعض ائمہ تفسیر نے یہی فرمایا ہے کہ فوق کی جانب سے مراد بنو قریظہ ہیں اور اسفل سے آنے والے باقی احزاب ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس عہد شکنی کی حقیقت اور صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ اور قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ کو بصورت وفد کعب کے پاس بھیجا کہ اس سے گفتگو کریں اور یہ ہدایت دے دی کہ اگر عہد شکنی کا واقعہ غلط ثابت ہوا تو سب صحابہ کے سامنے کھل کر بیان کردینا اور صحیح ثابت ہو تو آ کر گول مول بات کہنا جس سے ہم سمجھ لیں اور عام صحابہ کرام میں سراسیمگی پیدا نہ ہو۔
یہ دونوں بزرگ سعد نامی وہاں پہنچے تو عہد شکنی کے سامان کھلے دیکھے۔ ان کے اور کعب کے درمیان سخت کلامی بھی ہوئی، واپس آ کر حسب ہدایت گول مول بات کہہ کر آنحضرت ﷺ کو عہد شکنی کا واقعہ صحیح ہونے سے باخبر کردیا۔
اس وقت جب کہ یہود کا قبیلہ بنو قریظہ جو مسلمانوں کا حلیف تھا وہ بھی برسر جنگ آ گیا تو جو نفاق کے ساتھ مسلمانوں میں شامل تھے ان کا نفاق بھی کھلنے لگا۔ بعض نے تو کھل کر رسول اللہ ﷺ کے خلاف باتیں کہنا شروع کردیں، جیسا کہ اوپر گزرا (آیت) اذیقول المنفقون، اور بعض نے حیلے بہانے بنا کر میدان جنگ سے بھاگ جانے کے لئے آنحضرت ﷺ سے اجازت مانگی جس کا ذکر آیات مذکورہ (ان بیوتنا عورة) میں آیا ہے۔
اب محاذ جنگ کی یہ صورت تھی کہ خندق کی وجہ سے احزاب کا لشکر اندر نہ آسکتا تھا۔ اس کے دوسرے کنارہ پر مسلمانوں کا لشکر تھا۔ دونوں میں ہر وقت تیر اندازی کا سلسلہ رہتا تھا۔ اسی حال میں تقریباً ایک مہینہ ہوگیا کہ نہ کھل کر کوئی فیصلہ کن جنگ ہوتی تھی اور نہ کسی وقت بےفکری، دن رات صحابہ کرام اور رسول اللہ ﷺ خندق کے کنارے اس کی حفاظت کرتے تھے۔ اگرچہ رسول اللہ ﷺ خود بھی بنفس نفیس اس محنت ومشقت میں شریک تھے، مگر آپ پر یہ بات بہت شاق تھی کہ صحابہ کرام سب کے سب سخت اضطراب اور بےچینی میں ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک جنگی تدبیر
آنحضرت ﷺ کے علم میں یہ بات آ چکی ہے کہ قبیلہ غطفان کے رئیس نے ان یہودیوں کے ساتھ شرکت خیبر کے پھل اور کھجور کی طمع میں کی ہے۔ آپ نے غطفان کے دو سردار عیینہ ابن حصن اور ابو الحارث بن عمرو کے پاس قاصد بھیجا کہ ہمیں تمہیں مدینہ طیبہ کا ایک تہائی پھل دیں گے، اگر تم اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان سے واپس چلے جاؤ۔ یہ گفتگو درمیان میں تھی اور دونوں سردار راضی ہوچکے تھے قریب تھا کہ معاہدہ صلح پر دستخط ہوجائیں، مگر رسول اللہ ﷺ نے حسب عادت ارادہ کیا کہ صحابہ کرام سے اس معاملہ میں مشورہ لیں۔ قبیلہ اوس و خزرج کے دو بزرگ سعدین یعنی سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ کو بلا کر ان سے مشورہ لیا۔
حضرت سعد کی غیرت ایمانی اور عزم شدید
دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ کو اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے تو ہمارے کچھ کہنے کی مجال نہیں ہم قبول کریں گے ورنہ بتائیں کہ یہ آپ کی طبعی رائے ہے۔ یا آپ نے ہمیں مشقت و تکلیف سے بچانے کے لئے یہ تدبیر کی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہ امر الٰہی اس کا ہے، اور نہ میری اپنی طبیعت کا تقاضا ہے بلکہ صرف تمہاری مصیبت و تکلیف کو دیکھ کر یہ صورت اختیار کی ہے، کیونکہ تم لوگ ہر طرف سے گھرے ہوئے ہو۔ میں نے چاہا فریق مقابل کی قوت کو اس طرح فوراً توڑ دیا جائے۔ حضرت سعد بن معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم جس وقت بتوں کو پوجتے تھے اللہ تعالیٰ کو نہ پہچانتے تھے نہ اس کی عبادت کرتے تھے، بجز اس کے کہ وہ ہمارے مہمان ہوں، اور مہمانی کے طور پر ہم ان کو کھلا دیں یا پھر ہم سے خرید کرلے جائیں۔ آج جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی معرفت عطا فرمائی اور اسلام کا اعزاز عطا فرمایا، کیا آج ہم ان لوگوں کو اپنا پھل اور اپنے اموال دے دیں گے، ہمیں ان کی مصالحت کی کوئی حاجت نہیں، ہم تو ان کو تلوار کے سوا کچھ نہیں دیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔
رسول اللہ ﷺ نے سعد کی اولوالعزمی اور غیرت ایمانی کو دیکھ کر اپنا یہ ارادہ چھوڑ دیا اور فرمایا کہ تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ سعد نے صلح نامہ کا کاغذ ان کے ہاتھوں سے لے کر تحریر مٹا دی، کیونکہ ابھی اس پر دستخط نہیں ہوئے تھے۔ غطفان کے سردار عیینہ اور حارث جو خود اس صلح کے لئے تیار ہو کر مجلس میں موجود تھے، صحابہ کرام کی یہ قوت وشدت دیکھ کر خود بھی اپنے دلوں میں متزلزل ہوگئے۔
حضرت سعد بن معاذ کا زخمی ہونا اور ان کی دعا
ادھر خندق کے دونوں طرفوں سے تیر اندازی اور پتھراؤ کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت سعد بن معاذ، بنی حارثہ کے قلعہ میں جہاں عورتوں کو محفوظ کردیا گیا تھا، اپنی والدہ کے پاس گئے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں بھی اس وقت اسی قلعہ میں تھی، اور عورتوں کے پردے کے احکام اس وقت تک نہ آئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ سعد بن معاذ ایک چھوٹی زرہ پہنے ہوئے ہیں جس میں سے ان کے ہاتھ نکل رہے تھے اور ان کی والد ان سے کہہ رہی ہیں کہ جاؤ جلدی کرو، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لشکر میں شامل ہوجاؤ۔ میں نے ان کی والدہ سے کہا کہ ان کے لئے کوئی بڑی زرہ ہوتی تو بہتر تھا۔ مجھے ان کے ہاتھ پاؤں کا خطرہ ہے، جو زرہ سے نکلے ہوئے ہیں۔ والدہ نے کہا کچھ مضائقہ نہیں اللہ کو جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔
حضرت سعد بن معاذ لشکر میں پہنچے تو ان کو تیر لگا جس نے ان کی رگ الحل کو کاٹ ڈالا۔ اس وقت حضرت سعد نے یہ دعا کی کہ یا اللہ اگر آئندہ بھی قریش کا کوئی حملہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ پر ہونا مقدر ہے تو مجھے اس کے لئے زندہ رکھئے، کیونکہ اس سے زیادہ میری کوئی تمنا نہیں کہ میں اس قوم سے مقابلہ کروں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ایذائیں پہنچائیں، وطن سے نکالا اور آپ کی تکذیب کی۔ اور اگر آئندہ آپ کے علم میں جنگ کا یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے تو آپ مجھے موت شہادت عطا فرمائیں، مگر اس وقت تک مجھے موت نہ آئے جب تک کہ بنی قریظہ سے ان کی غداری کا انتقام لے کر میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوجائیں۔
حق تعالیٰ نے آپ کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں۔ اس واقعہ احزاب کو کفار کا آخری حملہ بنادیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کا دور شروع ہوا۔ پہلے خیبر پھر مکہ مکرمہ اور پھر دوسرے بلاد فتح ہوئے۔ اور بنو قریظہ کا واقعہ آگے آتا ہے کہ وہ گرفتار کر کے لائے گئے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذ ہی کے سپرد کیا گیا۔ ان کے فیصلہ کے مطابق ان کے جوان قتل کئے گئے اور عورتیں بچے قید کر لئے گئے۔
اس واقعہ احزاب میں صحابہ کرام اور رسول اللہ ﷺ کو رات بھر خندق کی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی۔ اگر کسی وقت آرام کے لئے لیٹے بھی تو ذرا کسی طرف سے شورو شغب کی آواز آئی تو حضرت محمد ﷺ اسلحہ باندھ کر میدان میں جاتے تھے۔ حضرت ام سلمہ ام المومنین فرماتی ہیں کہ ایک رات میں کئی کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ آپ ذرا آرام کرنے کے لئے تشریف لائے اور کوئی آواز سنی تو فوراً باہر تشریف لے گئے، پھر آرام کے لئے ذرا کمر لگائی اور پھر کوئی آواز سنی تو باہر تشریف لے گئے۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں بہت سے غزوات غزوہ مریسیع، خیبر، حدیبیہ، فتح مکہ اور غزوہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہی ہوں، آپ پر کسی غزوہ میں ایسی شدت اور مشقت نہیں ہوئی، جیسی غزوہ خندق میں پیش آئی۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو زخم بھی بہت لگے، سردی کی شدت سے بھی تکلیف اٹھائی، اس کے ساتھ کھانے پینے کی ضروریات میں بھی تنگی تھی۔
(مظہری)
رسول اللہ ﷺ کی چار نمازیں اس جہاد میں قضا ہوئیں
ایک روز مقابل کفار نے یہ طے کیا کہ سب مل کر یکبارگی حملہ کرو اور کسی طرح خندق کو عبور کر کے آگے پہنچو۔ یہ طے کر کے بڑی بےجگری سے مسلمانوں کے مقابلہ میں آگئے، اور سخت تیز اندازی کی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کو دن بھر ایسا مشغول رہنا پڑا کہ نماز کے لئے بھی ذرا سی مہلت نہ ملی، چار نمازیں عشاء کے وقت میں پڑھی گئیں۔
رسول اللہ ﷺ کی دعاء
جب مسلمانوں پر شدت کی انتہا ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے احزاب کفار کے لئے بد دعا کی اور تین روز پیر، منگل، بدھ میں مسجد فتح کے اندر مسلسل احزاب کی شکست و فرار اور مسلمانوں کی فتح کے لئے دعا کرتے رہے۔ تیسرے روز بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان دعا قبول ہوئی اور رسول اللہ ﷺ شاداں وفرحاں صحابہ کرام کے پاس تشریف لائے۔ فتح کی بشارت سنائی۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ اس وقت کے بعد سے کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پیش نہیں آئی۔ (مظہری)
کشود کار اور فتح کے اسباب کا آغاز
دشمنوں کی صفوف میں قبیلہ غطفان ایک بڑی طاقت تھی۔ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے انہی میں سے ایک شخص نعیم ابن مسعود کے دل میں ایمان ڈال دیا، اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ اور بتلایا کہ ابھی تک میری قوم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں، اب مجھے فرمائیں کہ میں اسلام کی کیا خدمت کروں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اکیلے آدمی یہاں کوئی خاص کام نہ کرسکو گے، اپنی قوم میں واپس جا کر انہی میں مل کر اسلام سے مدافعت کا کوئی کام کرسکو تو کرو۔ نعیم ابن مسعود ذہین سمجھدار آدمی تھے۔ ایک منصوبہ دل میں بنا لیا اور آنحضرت ﷺ سے اس کی اجازت چاہی کہ میں ان لوگوں میں جا کر جو مصلحت دیکھوں کہوں آپ نے اجازت دے دی۔
نعیم بن مسعود یہاں سے بنو قریظہ کے پاس گئے جن کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں ان کے قدیم تعلقات تھے۔ ان سے کہا کہ اے بنو قریظہ تم جانتے ہو کہ میں تمہارا قدیم دوست ہوں۔ انہوں نے اقرار کیا کہ ہمیں آپ کی دوستی میں کوئی شبہ نہیں، اس کے بعد حضرت نعیم ابن مسعود نے بنو قریظہ کے سرداروں سے ناصحانہ اور خیر خواہانہ انداز میں سوال کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ قریش مکہ ہوں یا ہمارا قبیلہ غطفان یا دوسرے قبائل یہود وغیرہ، ان کا یہاں وطن نہیں، یہ اگر شکست کھا کر بھاگ جائیں تو ان کا کوئی نقصان نہیں، تمہارا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ مدینہ تمہارا وطن ہے، تمہاری عورتیں اور اموال سب یہاں ہیں۔ اگر تم نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کی اور بعد میں یہ لوگ شکست کھا کر بھاگ گئے، تو تمہارا کیا بنے گا، کیا تم تنہا مسلمانوں کا مقابلہ کرسکو گے ؟
اس لئے میں تمہاری خیر خواہی سے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم لوگ ان کے ساتھ اس وقت تک شریک جنگ نہ ہو جب تک یہ لوگ اپنے خاص سرداروں کی ایک خاص تعداد تمہارے پاس رہن نہ رکھ دیں تاکہ وہ تم کو مسلمانوں کے حوالہ کر کے نہ بھاگ جائیں بنو قریظہ کو ان کا یہ مشورہ بہت اچھا معلوم ہوا، اس کی قدر کی اور کہا کہ آپ نے بہت اچھا مشورہ دیا۔
اس کے بعد نعیم بن مسعود قریشی سرداروں کے پاس پہنچے، اور ان سے کہا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں آپ کا دوست ہوں اور محمد ﷺ سے بری ہوں، مجھے ایک خبر ملی ہے تمہاری خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ میں وہ خبر تمہیں پہنچا دوں بشرطیکہ آپ لوگ میرے نام کا اظہار نہ کریں۔ وہ خبر یہ ہے کہ یہود بنی قریظہ تمہارے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد اپنے فیصلہ پر نادم ہوئے اور اس کی اطلاع محمد ﷺ کے پاس یہ کہہ کر بھیج دی ہے کہ کیا آپ ہم سے اس شرط پر راضی ہو سکتے ہیں کہ ہم قریش اور غطفان کے چند سرداروں کو آپ کے حوالے کردیں کہ آپ ان کی گردن مار دیں، پھر ہم آپ کے ساتھ مل کر ان سے جنگ کریں۔ محمد ﷺ نے ان کی بات کو قبول کرلیا ہے۔ اب بنو قریظہ تم سے بطور رہن کے تمہارے کچھ سرداروں کا مطالبہ کریں گے، اب آپ لوگ اپنے معاملہ کو سوچ لیں۔
اس کے بعد نعیم ابن مسعود اپنے قبیلہ غطفان میں گئے، اور ان کو یہی خبر سنائی۔ اس کے ساتھ ہی ابو سفیان نے قریش کی طرف سے عکرمہ بن ابی جہل کو اور غطفان کی طرف سے ورقہ ابن غطفان کو اس کام کے لئے مقرر کیا کہ وہ بنو قریظہ سے جا کر کہیں کہ اب ہمارا سامان جنگ بھی ختم ہو رہا ہے، اور ہمارے آدمی بھی مسلسل جنگ سے تھک رہے ہیں، ہم آپ کے معاہدے کے مطابق آپ کی امداد اور شرکت کے منتظر ہیں۔ بنو قریظہ نے ان کو اپنی قرار داد کے مطابق یہ جواب دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جنگ میں اس وقت تک شریک نہیں ہوں گے جب تک تم دونوں قبیلوں کے چند سردار ہمارے پاس بطور رہن (یرغمال) کے نہ پہنچ جائیں۔ عکرمہ اور ورقہ نے یہ خبر ابوسفیان کو پہنچا دی تو قریش اور غطفان کے سرداروں نے یقین کرلیا کہ نعیم بن مسعود نے جو خبر دی تھی وہ صحیح ہے۔ اور بنو قریظہ سے کہلا بھیجا کہ ہم ایک آدمی بھی اپنا آپ کو نہیں دیں گے، پھر آپ کا دل چاہے تو ہمارے ساتھ جنگ میں شرکت کریں اور نہ چاہیں تو نہ کریں۔ بنو قریظہ کا یہ حال دیکھ کر اس بات پر جو نعیم ابن مسعود نے کہی تھی اور زیادہ یقین ہوگیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دشمن گروہ میں سے ایک شخص کے ذریعہ ان کے آپس میں پھوٹ ڈال دی اور ان لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔
اس کے ساتھ دوسری آسمانی افتاد ان پر یہ آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور برفانی ہوا ان پر مسلط کردی، جس نے ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے، ہنڈیاں چولہوں سے اڑا دیں۔ یہ تو ظاہری اسباب اللہ تعالیٰ نے ان کے پاؤں اکھاڑنے کے لئے پیدا فرما دیئے تھے اس پر مزید اپنے فرشتے بھیج دیئے جو باطنی طور پر ان کے دلوں پر رعب طاری کردیں، ان دونوں باتوں کا ذکر آیات مذکورہ کے شروع میں بھی اس طرح فرمایا گیا ہے (آیت) فارسلنا علیہم ریحاً وجنوداً ثم تروھا، ”یعنی ہم نے بھیج دی ان کے اوپر ایک تندرست ہوا اور بھیج دیئے فرشتوں کے لشکر“
اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اب ان لوگوں کے لئے بھاگ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔
حضرت حذیفہ کا دشمن کے لشکر میں جانے اور خبر لانے کا واقعہ
دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کو نعیم ابن مسعود کی کارگزاری اور احزاب کے درمیان پھوٹ کے واقعات کی خبر ملی تو ارادہ فرمایا کہ اپنا کوئی آدمی جا کر دشمن کے لشکر اور ان کے ارادوں کا پتہ لائے۔ مگر وہ سخت برفانی ہوا جو دشمن پر بھیجی گئی تھی بہرحال پورے مدینہ پر حاوی ہوئی، اور مسلمان بھی اس سخت سردی سے متاثر ہوئے۔ رات کا وقت تھا، صحابہ کرام دن بھر کی محنت و مقابلہ سے چور چور سخت سردی کے سبب سمٹے ہوئے بیٹھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کون ہے جو کھڑا ہو اور دشمن کے لشکر میں جا کر ان کی خبر لائے، اور اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے، جاں نثار صحابہ کا مجمع تھا مگر حالات نے ایسا مجبور کر رکھا تھا کہ کوئی کھڑا نہیں ہوسکا۔ رسول اللہ ﷺ نماز میں مشغول ہوگئے اور کچھ دیر نماز میں مشغول رہنے کے بعد پھر مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہے کوئی شخص جو دشمن کے لشکر کی مجھے خبر لا دے اور اس کے عوض میں جنت حاصل کرے۔ اس مرتبہ بھی پورے مجمع میں سناٹا رہا، کوئی نہیں اٹھا۔ آنحضرت ﷺ پھر نماز میں مشغول ہوگئے اور کچھ دیر کے بعد پھر تیسری مرتبہ وہی خطاب فرمایا کہ جو ایسا کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ مگر پوری قوم دن بھر کے سخت تھکان اور کئی وقت کے فاقہ اور بھوک سے اور اوپر سے سردی کی شدت سے ایسی بےبس ہو رہی تھی کہ پھر بھی کوئی نہ اٹھا۔
حضرت حذیفہ بن یمان راوی حدیث فرماتے ہیں کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے میرا نام لے کر فرمایا کہ حذیفہ تم جاؤ۔ حالت میری بھی سب جیسی تھی، مگر نام لے کر حکم دینے پر اطاعت کے سوا چارہ نہ تھا۔ میں کھڑا ہوگیا، اور سردی سے میرا تمام بدن کانپ رہا تھا۔ آپ نے اپنا دست مبارک میرے سر اور چہرے پر پھیرا اور فرمایا کہ دشمن کے لشکر میں جاؤ اور مجھے صرف خبر لا کردو اور میرے پاس واپس آنے سے پہلے کوئی کام نہ کرو۔ اور پھر آپ نے میری حفاظت کے لئے دعا فرمائی۔ میں نے اپنی تیر کمان اٹھائی اور اپنے کپڑے اپنے اوپر باندھ لئے اور ان کی طرف روانہ ہوگیا۔
جب یہاں سے روانہ ہوا تو عجیب ماجرا یہ دیکھا کہ خیمے کے اندر بیٹھے ہوئے جو سردی سے کپکپی طاری تھی وہ ختم ہوگئی، اور میں اس طرح چل رہا تھا جیسے کوئی گرم حمام کے اندر ہو، یہاں تک کہ میں ان کے لشکر میں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ہوا کے طوفان نے ان کے خیمے اکھاڑ دیئے تھے اور ہانڈیاں الٹ دی تھیں۔ ابو سفیان آگ کے پاس بیٹھ کر آگ سینک رہے تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر اپنا تیر کمان مستحکم کیا اور ابوسفیان پر تیر پھینکنے ہی والا تھا کہ مجھے حضور ﷺ کا یہ فرمان یاد آ گیا۔ کہ کچھ کام وہاں سے واپس آنے تک نہ کرنا۔ ابو سفیان بالکل میری زد میں تھے، مگر اس فرمان کی بنا پر میں نے اپنا تیر الگ کرلیا۔
ابوسفیان حالات سے پریشان ہو کر واپسی کا اعلان کرنا چاہتے تھے، مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ قوم کے ذمہ داروں سے بات کریں۔ رات کی تاریکی اور سناٹے میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کوئی جاسوس موجود ہو اور ان کی بات سن لے۔ اس لئے ابو سفیان نے یہ ہوشیاری کی کہ بات کرنے سے پہلے سارے مجمع کو کہا کہ ہر شخص اپنی برابر والے آدمی کو پہچان لے تاکہ کوئی غیر آدمی ہماری بات نہ سن سکے۔
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ اب مجھے خطرہ ہوا کہ میری برابر کا آدمی جب مجھ سے پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ تو میرا راز کھل جائے گا۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری اور دلیری سے خود مسابقت کر کے اپنے برابر والے آدمی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے کہا تعجب ہے تم مجھے نہیں جانتے، میں فلاں ابن فلاں ہوں۔ وہ قبیلہ ہوازن کا آدمی تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت حذیفہ کو گرفتاری سے بچا دیا۔
ابو سفیان نے جب یہ اطمینان کرلیا کہ مجمع اپنا ہی ہے، کوئی غیر نہیں ہے تو اس نے پریشان کن حالات اور بنو قریظہ کی بد عہدی اور سامان جنگ ختم ہوجانے کے واقعات سنا کر کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ اب آپ سب واپس چلیں اور میں بھی واپس جا رہا ہوں اسی وقت لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور سب واپس جانے لگے۔
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں یہاں سے واپس چلا تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے گرد کوئی گرم حمام ہے جو مجھے سردی سے بچا رہا ہے۔ واپس پہنچا تو آنحضرت ﷺ کو نماز میں مشغول پایا۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو میں نے واقعہ کی خبر دی۔ رسول اللہ ﷺ اس خبر مسرت سے خوش ہو کر ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں آپ کے دندان مبارک چمکنے لگے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے قدموں میں جگہ دی اور جو چادر آپ اوڑھے ہوئے تھے اس کا ایک حصہ مجھ پر ڈال دیا، یہاں تک کہ میں سو گیا۔ جب صبح ہوگئی تو آپ نے ہی یہ کہہ کر مجھے بیدار فرمایا کہ قم یا نومان، ”کھڑا ہوجا اے بہت سونے والے“
آئندہ کفار کے حوصلے پست ہوجانے کی خوشخبری
صحیح بخاری میں حضرت سلیمان بن صرد کی روایت ہے کہ احزاب کے واپس جانے کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
”یعنی اب وہ ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے اور ان کے ملک پر چڑھائی کریں گے“ (مظہری)
یہ ارشاد فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام شہر مدینہ میں واپس آگئے، اور ایک مہینہ کے بعد مسلمانوں نے اپنے ہتھیار کھولے۔
تنبیہ
حضرت حذیفہ ؓ کا یہ واقعہ صحیح مسلم میں ہے اور یہ مستقلاً ایک درس عبرت ہے، جو بہت سی ہدایات اور معجزات رسول اللہ ﷺ پر مشتمل ہے۔ غور کرنے والے خود معلوم کرلیں گے، تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں۔
غزوہ بنو قریظہ
ابھی آپ ﷺ اور صحابہ کرام مدینہ میں واپس پہنچے ہی تھے کہ اچانک جبرائیل امین ؑ حضرت دحیہ کلبی صحابی کی صورت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اگرچہ آپ لوگوں نے اپنے ہتھیار کھول دیئے ہیں مگر فرشتوں نے اپنے ہتھیار نہیں کھولے، اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے کہ آپ بنو قریظہ پر حملہ کریں اور میں آپ سے آگے وہیں جا رہا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اعلان کرنے کے لئے ایک منادی بھیج دی جس نے رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم لوگوں کو سنایا اور پہنچایا۔ لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظة، ”یعنی کوئی آدمی عصر کی نماز نہ پڑھے جب تک کہ بنو قریظہ میں نہ پہنچ جائے۔“
صحابہ کرام سب کے سب اس دوسرے جہاد کے لئے فوراً تیار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں عصر کا وقت آیا تو بعض حضرات نے حکم نبوی کے ظاہر کے موافق راستہ میں نماز عصر ادا نہیں کی، بلکہ منزل مقرر بنو قریظہ میں پہنچ کر ادا کی۔ اور بعض نے یہ سمجھا کہ آنحضرت ﷺ کا مقصد عصر کے وقت میں بنو قریظہ پہنچ جانا ہے، ہم اگر نماز راستہ میں پڑھ کر عصر کے وقت میں وہاں پہنچ جائیں تو یہ حضور ﷺ کے ارشاد کے منافی نہیں۔ انہوں نے نماز عصر اپنے وقت پر راستہ میں ادا کرلی۔
مجتہدین کے اختلاف میں کوئی جانب گناہ یا منکر نہیں ہوتی جس پر ملامت کی جائے
رسول اللہ ﷺ کو صحابہ کرام کے اس اختلاف عمل کی خبر دی گئی، تو آپ نے دونوں فریق میں سے کسی کو ملامت نہیں فرمائی، بلکہ دونوں کی تصویب فرمائی۔ اس سے علماء امت نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ علمائے مجتہدین جو حقیقتاً مجتہد ہوں اور اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوں ان کے اقوال مختلفہ میں سے کسی کو گناہ اور منکر نہیں کہا جاسکتا، دونوں فریقوں کے لئے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں ثواب لکھا جاتا ہے۔
بنو قریظہ سے جہاد کے لئے نکلنے کے وقت رسول اللہ ﷺ نے جھنڈا حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے سپرد فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے آنے کی خبر سن کر بنو قریظہ قلعہ بند ہوگئے۔ اسلامی لشکر نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا۔
بنو قریظہ کے رئیس کعب کی تقریر
بنو قریظہ کا سردار کعب جس نے رسول اللہ ﷺ کا عہد توڑ کر احزاب کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، اس نے اپنی قوم کو جمع کر کے حالات کی نزاکت بیان کرتے ہوئے تین صورتیں عمل کی پیش کیں
اول یہ کہ تم سب کے سب اسلام قبول کرو اور محمد ﷺ کے تابع ہوجاؤ کیونکہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم سب لوگ جانتے ہو کہ وہ حق پر ہیں، اور تمہاری کتاب تورات میں ان کی پیشن گوئی موجود ہے، جو تم پڑھتے ہو۔ اگر تم نے ایسا کرلیا تو دنیا میں اپنی جان و مال اور اولاد کو محفوظ کرلو گے اور آخرت بھی درست ہوجائے گی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ تم اپنی اولاد اور عورتوں کو پہلے خود اپنے ہاتھ سے قتل کردو، اور پھر پوری طاقت سے مقابلہ کرو یہاں تک کہ تم بھی سب مقتول ہوجاؤ۔
تیسری صورت یہ ہے کہ یوم السبت (ہفتہ کے دن) تم مسلمانوں پر یکبارگی حملہ کردو، کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں یوم السبت میں قتل حرام ہے، اس لئے وہ ہماری طرف سے اس دن میں بےفکر ہوں گے، ہم ناگہانی طور پر حملہ کریں تو ممکن ہے کہ کامیاب ہوجائیں۔
کعب رئیس قوم کی یہ تقریر سن کر قوم کے لوگوں نے جواب دیا کہ پہلی بات یعنی مسلمان ہوجانا یہ تو ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے، کیونکہ ہم تورات کو چھوڑ کر اور کسی کتاب کو نہ مانیں گے۔ رہی دوسری بات تو عورتوں بچوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ہم ان کو قتل کردیں۔ باقی تیسری بات خود حکم تورات اور ہمارے مذہب کے خلاف ہے، یہ بھی ہم نہیں کرسکتے۔
اس کے بعد سب نے اس پر اتفاق کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور آپ ان کے بارے میں جو فیصلہ فرما دیں اس پر راضی ہوجائیں۔ انصاری صحابہ کرام میں جو لوگ قبیلہ اوس سے متعلق تھے ان کے اور بنو قریظہ کے درمیان قدیم زمانے میں معاہدہ رہا تھا تو اوسی صحابہ کرام نے آنحضرت محمد ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ میں ان کا معاملہ تمہارے ہی ایک سردار کے سپرد کر دوں۔ یہ لوگ اس پر راضی ہوگئے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہارے سردار سعد بن معاذ ہیں، اس کا فیصلہ میں ان کے سپرد کرتا ہوں۔ اس پر سب لوگ راضی ہوگئے۔
حضرت سعد بن معاذ کو واقعہ خندق میں تیر کا زخم شدید پہنچا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تیمار داری کے لئے مسجد کے احاطہ میں ایک خیمہ لگوا کر اس میں ٹھہرا دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق بنو قریظہ کے قیدیوں کا فیصلہ ان پر چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں سے جو جنگ کرنے والے جوان ہیں وہ قتل کردیئے جائیں اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں کے ساتھ جنگی قیدیوں کا معاملہ کیا جائے جو اسلام میں معروف ہے۔ یہی فیصلہ نافذ کردیا گیا، اور اس فیصلے کے فوراً بعد ہی حضرت سعد بن معاذ کے زخم سے خون بہہ پڑا، اسی میں ان کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں دعائیں قبول فرمائیں ایک یہ کہ آئندہ قریش کا رسول اللہ ﷺ پر کوئی حملہ نہ ہوگا، دوسرے بنو قریظہ کی غداری کی سزا ان کو مل جائے وہ اللہ نے انہی کے ذریعہ دلوا دی۔
جن کو قتل کرنا تجویز ہوا تھا ان میں سے بعض مسلمان ہوجانے کی وجہ سے آزاد کردیئے۔ عطیہ قرظی جو صحابہ کرام میں معروف ہیں انہی لوگوں میں سے ہیں۔ انہی لوگوں میں زبیر بن باطا بھی تھے۔ ان کو حضرت ثابت بن قیس بن شماس صحابی نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کر کے آزاد کرا دیا، جس کا سبب یہ تھا کہ زبیر بن باطا نے ان پر زمانہ جاہلیت میں ایک احسان کیا تھا۔ وہ یہ کہ جاہلیت کے زمانے کی جنگ بعاث میں ثابت بن قیس قید ہو کر زبیر بن باطا کے قبضہ میں آگئے تھے، زبیر بن باطا نے ان کے سر کے بال کاٹ کر ان کو آزاد کردیا قتل نہیں کیا تھا۔
احسان کے بدلے اور غیرت قومی کے دو عجیب نمونے
حضرت ثابت بن قیس زبیر بن باطا کی رہائی کا حکم حاصل کر کے ان کے پاس گئے اور کہا کہ میں نے یہ اس لئے کیا ہے کہ تمہارے اس احسان کا بدلہ کر دوں، جو تم نے جنگ بعاث میں مجھ پر کیا تھا۔ زبیر بن باطا نے کہا کہ بیشک شریف آدمی دوسرے شریف کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا کرتا ہے۔ مگر یہ تو بتلاؤ کہ وہ آدمی زندہ رہ کر کیا کرے گا جس کے اہل و عیال نہ رہے ہوں۔ یہ سن کر ثابت بن قیس حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ان کے اہل و عیال کی جان بخشی کردی جائے، آپ نے قبول فرما لیا۔ زبیر بن باطا کو اس کی اطلاع دی تو یہ ایک قدم اور آگے بڑھے۔ کہ ثابت یہ تو بتلاؤ کہ کوئی انسان صاحب عیال کیسے زندہ رہے گا جب اس کے پاس کوئی مال نہ ہو۔ ثابت بن قیس پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور ان کا مال بھی ان کو دلوا دیا۔ یہاں تک تو ایک مومن کی شرافت اور احسان شناسی کا قضیہ تھا جو حضرت ثابت بن قیس کی طرف سے ہوا۔
اب دوسرا رخ سنئے کہ زبیر بن باطا کو جب اپنے اور اپنے اہل و عیال کی آزادی اور اپنے مال و متاع سب واپس مل جانے کا اطمینان ہوچکا تو اس نے حضرت ثابت بن قیس سے قبائل یہود کے سرداروں کے متعلق سوال کیا اور پوچھا کہ ابن ابی الحقیق کا کیا ہوا جس کا چہرہ چینی آئینہ جیسا تھا۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ قتل کردیا گیا۔ پھر پوچھا کہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن قریظہ اور عمرو بن قریظہ کا کیا انجام ہوا ؟ انہوں نے بتلایا کہ یہ دونوں بھی قتل کردیئے گئے، پھر دو جماعتوں کے متعلق سوال کیا اس کے جواب میں ان کو خبر دی گئی کہ وہ سب قتل کردیئے گئے۔
یہ سن کر زبیر بن باطا نے حضرت ثابت بن قیس سے کہا کہ آپ نے اپنے احسان کا بدلہ پورا کردیا، اور اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا، مگر میں اب اپنی زمین جائیداد کو ان لوگوں کے بعد آباد نہیں کروں گا، مجھے بھی انہی لوگوں کے ساتھ شامل کردو، یعنی قتل کر ڈالو۔ ثابت بن قیس نے اس کو قتل کرنے سے انکار کردیا، پھر اس کے اصرار پر کسی دوسرے مسلمان نے اس کو قتل کیا۔ (قرطبی)
یہ ایک کافر کی غیرت قومی تھی جس نے سب کچھ ملنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے بغیر زندہ رہنا پسند نہ کیا، ایک مومن ایک کافر کے یہ دونوں عمل ایک تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بنو قریظہ کی یہ فتح ہجرت کے پانچویں سال میں ماہ ذی قعدہ کے آخر اور ذی الحجہ کے شروع میں ہوئی ہے۔ (قرطبی)
تنبیہ
غزوہ احزاب و بنو قریظہ کو اس جگہ کسی قدر تفصیل سے لانے کی ایک وجہ تو خود قرآن کریم کا ان کو تفصیل سے دو رکوع میں بیان فرمانا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ان واقعات میں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بہت سی ہدایات اور رسول اللہ ﷺ کے معجزات بینات اور بہت سی عبرتیں ہیں، جن کو اس قصے میں عنوانات دے کر واضح کردیا گیا ہے۔ اس پورے واقعہ کے معلوم کرلینے کے بعد آیات مذکورہ کی تفسیر کے لئے
خلاصہ تفسیر
مذکور کا دیکھ لینا کافی ہے، کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں رہتی، صرف چند باتیں قابل نظر ہیں۔
اول یہ کہ اس غزوہ میں مسلمانوں پر شدت اور مختلف قسم کی تکلیفوں میں مبتلا ہونے کا ذکر فرما کر اس اضطراب کے عالم میں ایک حال تو مومنین کا بتلایا گیا ہے کہ تظنون باللہ الظنونا، یعنی تم لوگ اللہ کے ساتھ مختلف قسم کے گمان کرنے لگے تھے۔ ان گمانوں سے مراد غیر اختیاری وساوس ہیں جو اضطراب کے وقت انسان کے دل میں آیا کرتے ہیں کہ موت اب آ ہی گئی، اب نجات کی صورت نہیں رہی وغیرہ وغیرہ۔ ایسے غیر اختیاری خطرات و وساوس نہ کمال ایمانی کے منافی ہیں نہ کمال ولایت کے۔ البتہ ان سے مصیبت و اضطراب کی شدت کا ضرور پتہ لگتا ہے۔ کہ صحابہ کرام جیسے جبل استقامت کے دلوں میں بھی وسوسے آنے لگے۔
Top