Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 129
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں يَغْفِرُ : وہ بخشدے لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہے وَيُعَذِّبُ : اور عذاب دے مَنْ : جس يَّشَآءُ : چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کی ملک ہے وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب کرے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔4
4 اللہ تعالیٰ کے اختیار کی دلیل یہ ہے کہ جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے سب اللہ ہی کی ملک ہے اور سب اس کے مملوک ہیں وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے اور عذاب کرے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب سب اس کے مملوک ہیں تو اسی کو تصرف کا حق حاصل ہے وہ جس کی چاہے مغفرت فرما دے یعنی اس کو اسلام نصیب ہوجائے جو مغفرت کا اصل مبنی ہے اور جس کو چاہے عذاب کرے یعنی وہ اسلام سے محروم رہے اور عذاب کا مستحق قرار پائے آخر میں اپنے غفور اور رحیم ہونے کا اعلان فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ وہ معاف کرنے اور مہربانی کرنے میں بڑا فیاض ہے بشرطیکہ قانون میں ملزم کے لئے تھوڑی سی بھی گنجائش موجود ہو۔ چونکہ اوپر استقلال اور تقوے کی تاکید تھی اور یہ آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ تقویٰ کی پابندی میں تھوڑی سی کوتاہی تو بدر کے آخر میں ہوئی یعنی فدیہ لے کر قیدیوں کو رہا کردیا اور دوسری کوتاہی احد میں ہوئی کہ پیغمبر کی بلااجازت گھاٹی چھوڑ دی اس لئے تقوے کی بار بار تاکید فرماتے ہیں اور تقوے چونکہ نام ہے گناہوں سے بچنے کا اس لئے بعض اہم گناہ جیسے سود کا لین دین اس کی جانب توجہ دلاتے ہیں اور یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی ایک گناہ کا مرتکب ہوجائے تو اس کی نحوست سے دوسرے گناہوں میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے جس طرح ایک نیکی دوسری نیکی کی توفیق کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی بنا پر بعض محققین نے فرمایا کہ اگر بدر میں کوتاہی سرزد نہ ہوتی تو شایداحد میں بھی غلطی سرزد نہ ہوتی۔ بہرحال تقوے کی پابندی کے سلسلے میں سود سے بچنے کا حکم دیا کیونکہ سود تقوے کے لئے سخت مضر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اوپر قبیلہ بنی حارثہ اور بنی سلمہ کی بزدلی پر تنبیہہ فرمائی تھی آگے اس کا علاج بتاتے ہیں کیونکہ بزدلی حرام کا مال کھانے سے پیدا ہوتی ہے اور نیکی کی توفیق سلب ہوجاتی ہے سب سے بڑی طاعت جہاد ہے اگر سود کھائو گے تو جہاد کے معاملہ میں بزدل ہو جائو گے نیز اس لئے کہ سود خوار بےرحم ہوتا ہے وہ غریب کے ساتھ ذرا ہمدردی نہیں کرتا اور اپنے روپے کا معاوضہ چاہتا ہے لہٰذا جو غریب پر سود چھوڑنے کو تیار نہیں وہ میدان جہاد میں جان دینے کو کب تیار ہوگا جو مال پر بخل کرتا ہے وہ جان پر اور بھی بخیل ہوگا اور ربط کی تقریر یوں بھی ہوسکتی ہے کہ اوپر کی آیتوں میں مسلمانوں کو حکم ہوا تھا کہ یہود سے راز دارانہ تعلقات نہ رکھو۔ اور یہود سے ذاتی تعلقات کے علاوہ مسلمانوں کے لین دین کے تعلقات بھی بہت تھے جن میں سود کا لین دین بھی بکثرت تھا اور مسلمانوں کے لئے یہ بڑا دشوار تھا کہ تعلقات کس طرح منقطع کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہود سے تعلقات بہرحال قطع کرنے ہیں کیونکہ ان کی سازشیں غزوۂ احد میں بھی اپنا کام کر رہی ہیں۔ اور مسلمانوں کو ناکام کرنے میں یہ لوگ سعی کر رہے ہیں اس لئے ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ سود کا لین دین بند کرو تاکہ یہود سے تعلقات قطع کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ فقیر کے نزدیک ربط کی وہ تقریر بہت مناسب اور اوفق بالحدیث ہے جو ایک دفعہ شیخ الہند (رح) نے فرمائی تھی کہ چونکہ شہدائے احد کو دیکھ کر مسلمانوں نے کہا تھا کہ اگر اب کہ ہم کو کفار پر قابو ہوا تو ہم ان سے مرنے والوں کا سود تک وصول کرلیں گے۔ اس پر حق تعالیٰ نے فرمایا کہ عدل و انصاف اور تقویٰ کو کسی حالت میں ہاتھ سے نہ جانے دو اور سود لینے کا خیال چھوڑ دو بلکہ وان عاقبتم فحاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ کہ جب کبھی دشمنوں سے بدلہ لینے کا موقعہ ہو تو اسی قدر بدلہ لو جس قدر تم کو تکلیف پہنچائی گئی ہو سورة نحل کے آخر میں جس کی تصریح فرمائی اسی کو یہاں لا تاکلوا الربوا کی نہی سے تعبیر کیا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top