Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 154
وَ رَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِهِمْ وَ قُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَرَفَعْنَا : اور ہم نے بلند کیا فَوْقَھُمُ : ان کے اوپر الطُّوْرَ : طور بِمِيْثَاقِهِمْ : ان سے عہد لینے کی غرض سے وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا لَهُمُ : ان کیلئے (ان سے) ادْخُلُوا : تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے وَّقُلْنَا : اور ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے لَا تَعْدُوْا : نہ زیادتی کرو فِي : میں السَّبْتِ : ہفتہ کا دن وَاَخَذْنَا : اور ہم نے لیا مِنْهُمْ : ان سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : مضبوط
اور ہم نے ان لوگوں پر طور کو اٹھا دیا اس سے مضبوط عہد لینے کی وجہ سے اور ہم نے ان سے کہا کہ دروازہ میں داخل ہوجاؤ جھکے ہوئے اور ہم نے ان سے کہا کہ زیادتی نہ کرو سنیچر کے دن میں اور ہم نے ان سے لے لیا تھا بہت مضبوط عہد۔
پھر فرمایا (وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ ) اس کا ذکر بھی سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ اور سورة اعراف میں بھی ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل پر توریت شریف پیش کی اور فرمایا کہ اس کو قبول کرو اور اس کے احکام پر عمل کرو تو یہ لوگ انکاری ہوگئے تب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دیا جو ان کے سروں پر آکر ٹھہر گیا اور ان سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ ہم نے دیا ہے اس کو قبول کرو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو۔ اسی وقت کہنے لگے کہ ہم مانتے ہیں عہد کرلیا کہ ہم اس پر عمل کریں گے لیکن پھر اپنے عہد سے پھرگئے جیسا کہ سورة بقرۃ میں فرمایا (ثّمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ ) یہاں اس واقعہ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ فرمایا۔ پھر فرمایا (وَقُلْنَا لَھُمُ ادْخُلُوم الْبَابَ سُجَّدًا) (اور ہم نے کہا داخل ہوجاؤ دروازہ میں جھکے ہوئے) اس کا ذکر بھی سورة بقرہ میں گذر چکا ہے اور سورة اعراف میں بھی ہے۔ جب میدان تیہ سے نکلے تو ان کو ایک بستی میں داخل ہونے کا حکم ہوا یہ بستی کون سی تھی اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ان کو حکم ہوا تھا کہ اس بستی میں جھکے ہوئے تواضع کے ساتھ داخل ہوں۔ لیکن ان لوگوں نے اس کی نافرمانی کی اور بجائے جھکے ہوئے داخل ہونے کے بیٹھ کر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے تفصیل کے لیے سورة بقرہ رکوع 6 کی تفسیر دیکھ لی جائے۔ (انوار البیان آغاز میں) پھر فرمایا (وَقُلْنَالَھُمْ لَاتَعْدُوْا فِی السَّبْتِ ) اور ہم نے ان سے کہا کہ سنیچر کے دن میں زیادتی نہ کرو۔ اس کا ذکر بھی سورة بقرہ میں گذر چکا ہے اور سورة اعراف میں بھی ہے۔ یہودیوں کو حکم تھا کہ سنیچر کے دن مچھلیوں کا شکار نہ کریں۔ اور ان کی آزمائش کے لیے سنیچر کے دن مچھلیاں دریا کے کنارے پر خوب ابھر ابھر کر آتی تھیں اور دوسرے دنوں میں مچھلیاں غائب ہوجاتی تھیں۔ چونکہ سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنا ممنوع تھا اس لیے ان لوگوں نے یہ حرکت کی کہ دریا کے کنارے حوض بنا دئیے اور ان حوضوں کو بڑی بڑی نالوں کے ذریعے سمندر سے ملا دیا۔ جمعہ کے دن بندتوڑ دیتے تھے کہ سنیچر کے دن پانی کے بہاؤ کے ساتھ مچھلیاں ان حوضوں میں داخل ہوجائیں جب مچھلیاں ان حوضوں میں آجاتیں تو بند لگا دیتے تھے تاکہ سمندر میں واپس نہ جائیں پھر اتوار کے دن پکڑ لیتے تھے اس حیلے کو انہوں نے استعمال کیا اور اس طرح سے سنیچر کے دن میں زیادتی اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ پھر فرمایا (وَاَخَدْنَا مِنْھُمْ مِّیْثَا قاً غَلِیْظاً ) یعنی ان سے ہم نے بہت مضبوط عہد لیا تھا کہ اللہ کے او امر پر چلیں گے اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچیں گے لیکن انہوں نے عہد کو توڑ دیا جس کا ذکر ابھی اگلی آیت میں آتا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top