Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 154
وَ رَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِهِمْ وَ قُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَرَفَعْنَا : اور ہم نے بلند کیا فَوْقَھُمُ : ان کے اوپر الطُّوْرَ : طور بِمِيْثَاقِهِمْ : ان سے عہد لینے کی غرض سے وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا لَهُمُ : ان کیلئے (ان سے) ادْخُلُوا : تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے وَّقُلْنَا : اور ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے لَا تَعْدُوْا : نہ زیادتی کرو فِي : میں السَّبْتِ : ہفتہ کا دن وَاَخَذْنَا : اور ہم نے لیا مِنْهُمْ : ان سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : مضبوط
اور ہم نے اٹھایا ان لوگوں پر کوہ طور کو، ان کے پختہ عہد کی بنا پر (احکام تورات پر عمل کرنے کے لیے) اور ہم نے ان سے کہا کہ تم داخل ہونا (شہر پناہ کے) دروازے میں (عاجزانہ اور) سر جھکائے ہوئے، اور ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ تم لوگ زیادتی نہ کرنا ہفتے کے (احکام کے) بارے میں، اور ہم نے ان سے بڑا مضبوط (اور پختہ) عہد لیا
400 بنی اسرائیل پر رفع طور کا ذکر : جب انہوں نے احکام تورات پر عمل کرنے سے انکار کردیا، تو کوہ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر ان سے اس طرح عہد لیا گیا (معارف وغیرہ) ۔ سو یہ دین میں داخل ہونے کیلئے جبر نہیں تھا بلکہ یہ دین کے احکام پر عمل پیرا ہونے کیلئے تھا۔ اور آپ کے ساتھ آپکے رب کی رحمت و عنایت اور تائید وتقویت شامل حال ہے۔ 401 بنی اسرائیل سے عہد اور اس کی نوعیت : یعنی یہ عہد لینے کیلئے کہ تم نے جو تورات پر اپنے ارادہ و اختیار سے ایمان لایا تھا، اس کے مطابق اس کے احکام پر عمل کرو جو کہ تمہارے دین کا تقاضا ہے۔ پس کوہ طور کا ان پر اٹھایا جانا دین میں داخل کرنے کے لئے جبر نہ تھا کہ { لا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنَ } " دین میں کوئی جبر نہیں " بلکہ یہ اپنی رضا ورغبت سے قبول کردہ دین کے احکام پر عمل درآمد کا معاملہ تھا اور اس کے لئے اجبا رو اکراہ نہ صرف جائز بلکہ عقل و نقل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ سو دین حق میں داخل ہونے کیلئے تو یقینا کسی پر کوئی جبر واکراہ نہیں، لیکن اپنے ارادہ و اختیار سے دین میں داخل ہونے کے بعد اس پر عمل کرنا ایک طبعی اور فطری تقاضا ہے، جسکے لئے جبرو اکراہ بہرحال درست ہے۔ 402 سجداً سے مراد : یعنی سجداً کا لفظ یہاں پر اپنے مشہور و معروف معنی میں نہیں، کہ اس حال میں تو دروازے میں داخلہ متحقق ہونا ہی متعذر ہے، بلکہ اس سے مراد عاجزی و تواضع کے ساتھ داخل ہونا ہے جو کہ تقاضا ہے شان عبدیت اور اظہار تشکر کا (المراغی، المحاسن، الصفوۃ، وغیرہ) ۔ البتہ دوسرا احتمال اس میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حال مقدرہ ہو یعنی تمہارے لیے یہ مقدر کردیا گیا کہ تم اس شہر میں داخل ہونے کے بعد اپنے خالق ومالک کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤ۔ مقصود بہرحال اظہار تشکر اور امتنان ہے، اس خالق ومالک کیلیے جس نے ان نعمتوں سے نوازا ہے۔ سبحانہ وتعالی۔ 403 بنی اسرائیل کی عبادت کے دن میں حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت : یعنی ہفتے کے دن مچھلیوں کا شکار کرنے کے بارے میں کہ اس دن کو تم لوگوں نے خود اپنے ارادہ و اختیار سے عبادت کیلئے مقرر کیا۔ اس لیے اس کے تقدس کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں کرنا۔ اور اس کے تقدس کا لحاظ کرنا اور حدود کی پامالی سے بچنا خود تمہارے دین و ایمان عہد و پیمان اور قول وقرار کا تقاضا ہے۔
Top