Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 37
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْهَا١٘ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہیں گے اَنْ : کہ يَّخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنَ : سے النَّارِ : آگ وَمَا : حالانکہ نہیں هُمْ : وہ بِخٰرِجِيْنَ : نکلنے والے مِنْهَا : اس سے وَلَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : ہمیشہ رہنے والا
وہ ارادہ کریں گے کہ دوزخ سے نکلیں حالانکہ وہ اس میں سے نکلنے والے نہیں اور ان کے لیے ہمیشہ باقی رہنے والا عذاب ہے۔
پھر فرمایا (یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُ جُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا ھُمْ بِخَارِ جِیْنَ مِنْھَا) کہ وہ دوزخ سے نکلنا چاہیں گے لیکن وہ اس سے نکلنے والے نہیں، سورة الم سجدہ میں فرمایا (کُلَّمَا اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُ جُوْا مِنْھَآ اُعِیْدُوْا فِیْھَا) (کہ جب بھی اس میں سے نکلنے کا ارادہ کریں گے اس میں واپس لوٹا دیے جائیں گے) پھر فرمایا (وَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ) اور ان کے لئے عذاب ہے جو ہمیشہ رہے گا۔ اوپر ڈاکہ زنی کی دنیا میں سزا بیان فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ یہ ان کی دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے پھر چند آیات کے بعد چوروں کی سزا بیان فرمائی (جوا گلی آیت میں آرہی ہے) ان دونوں کے درمیان ایک تو اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا دوسرے اللہ کی نزدیکی تلاش کرنے کا حکم دیا تیسرے جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیا چوتھے کافروں کا عذاب بیان کیا اور یہ بتایا کہ جب وہ عذاب میں داخل ہونگے تو اگر یہ دنیا اور اس قدر اور بھی کچھ ان کے پاس ہو تو یہ سب جان چھڑانے کے لئے خرچ کرنے کو تیار ہوجائیں گے، پہلے جو دو حکم ہیں یعنی تقویٰ اختیار کرنا اور اللہ کا قرب تلاش کرنا ان دنوں میں چوری ڈاکہ زنی سے بچنا بھی داخل ہے اور یہ حکم تمام فرائض واجبات اور مستحبات کی ادائیگی کو بھی شامل ہے تیسرا حکم یعنی جہاد فی سبیل اللہ کا جو حکم دیا اس میں یہ بتادیا کہ فساد فی الارض اور چیز ہے اور جہاد فی سبیل اللہ دوسری چیز ہے جہاد فساد فی الارض کو دبانے کے لئے ہے اگر اس سلسلہ میں قتل و خون ہوجائے کافر و مشرک مارے جائیں ڈاکوؤں کا خون ہوجائے تو یہ فساد فی الارض نہیں ہے اس سے تو اللہ کی رضا اور اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے جو لوگ ڈاکہ زنی یا چوری کرتے ہیں وہ مال جمع کرنے کے لئے یہ کام کرتے ہیں ان کو بتادیا کہ جو مال اور دولت لوٹ مار کے اور چوری اور ڈکیتی کے ذریعہ جمع کرو گے وہ آل اولاد اور دنیا کی مثل اور کچھ بھی مل جائے تو اس سب کو جان چھڑانے کے لئے خرچ کرنے کو تیار ہوجاؤ گے مگر وہاں مال موجود نہ ہوگا عذاب بھگتنا ہوگا اپنی ذات کو عذاب میں داخل کرنا ہوگا اور لوگوں کو تکلیف دیکر حرام مال جمع کرنا اور اولاد کے لئے چھوڑجانا اور آخرت میں عذاب میں گرفتار ہونا یہ تو اپنے اوپر سراسر ظلم ہے۔
Top