Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 22
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ١ۚ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ کا وَالشَّهَادَةِ ۚ : اور آشکارا هُوَ الرَّحْمٰنُ : وہ بڑا مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
وہ اللہ ہے کوئی معبود نہیں مگر وہی، وہ غیب کا اور ظاہر چیزوں کا جاننے والا ہے وہ رحمن ہے وہ رحیم ہے،
اللہ تعالیٰ کے لئے اسمائے حسنیٰ ہیں جو اس کی صفات جلیلہ کا مظہر ہیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ شانہ کی شان الوہیت بیان کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو لوگ اس کی ذات وصفات میں اور اس کی شان الوہیت میں جس کسی کو بھی شریک بناتے ہیں وہ ان شرک کرنے والوں کے شرک سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے اولاً عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ فرمایا یعنی وہ غائب کی چیزوں کو بھی جانتا ہے اور جو چیزیں ظاہر ہیں اس کی مخلوق کے سامنے ہیں انہیں بھی جانتا ہے غیب کے مفہوم عام میں سب کچھ آجاتا ہے جو چیزیں پیدا ہو کرنا پید ہوگئیں اور جو آئندہ وجود میں آئیں گی، ازل سے ابد تک اسے ہر چیزیں کا علم ہے، جو چیزیں وجود میں کبھی بھی آئیں گی اسے ان کا بھی علم ہے اور جو چیزیں ممتنع الوقوع ہیں اسے ان کا بھی علم ہے۔ الشہادۃ کا مفہوم بھی عام ہے مخلوق کو جن چیزوں کا علم ہے اور جن چیزوں کا مخلوق کو علم نہیں وہ انہیں بھی جانتا ہے اور ان کے نہ جاننے کو بھی جانتا ہے۔ غرضیکہ ہر ممتنع اور ہر موجود اور ہر غیر موجود کا اسے علم ہے۔ جو علم اللہ نے کسی کو دے دیا اور جتنا دیدیا، اسے اسی قدر مل گیا۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جو کچھ علم غیب دیا گیا وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے دینے سے ہی ملا اور اتنا ہی ملا جتنا اللہ تعالیٰ نے دیا، کماقال اللہ تبارک و تعالیٰ ﴿ وَ مَا كَان اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِيْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ (الآیۃ) وقال تعالیٰ : عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًاۙ0026 اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ﴾ (الآیۃ) ثانیاً : صفت رحمت کو بیان کیا اور فرمایا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ کہ وہ رحمن بھی ہے رحیم بھی ہے۔ مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور رحمت سے مشتق ہیں چونکہ دونوں کے معنی میں مبالغہ ہے اس لئے ترجمہ میں بھی مبالغہ کا خیال رکھنا جاتا ہے، اکثر علماء فرماتے ہیں لفظ رحمن میں لفظ رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے دنیا میں بھی اس کی رحمت کا بہت زیادہ مظاہرہ ہوتا رہتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہت بڑا مظاہرہ ہوگا۔
Top