Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
تم نے جو بھی کھجوروں کے درخت کاٹ ڈالے یا تم نے انہیں کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، سو یہ اللہ کے حکم سے ہوا اور تاکہ اللہ کافروں کو ذلیل کرے۔
یہودیوں کے متروکہ درختوں کو کاٹ دینا یا باقی رکھنا دونوں کام اللہ کے حکم سے ہوئے حضرات صحابہ ؓ نے جب یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر کا محاصرہ کیا اور وہ لوگ اپنے قلعوں میں اپنے خیال میں محفوظ ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے کھجوروں کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا حکم دے دیا اس پر یہودیوں نے کہا کہ اے ابو القاسم آپ تو زمین میں فساد سے منع کرتے ہیں کیا یہ درختوں کا کاٹنا فساد نہیں ہے اور بعض روایات میں یوں بھی ہے کہ بعض مہاجرین نے مسلمانوں کو منع کیا کہ کھجوروں کے درختوں کو نہ کاٹیں، کیونکہ یہ مسلمانوں کو بطور غنیمت مل جائیں گے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے کھجوروں کے درختوں کو کاٹنے کی اجازت دے دی تھی پھر منع فرمایا تھا اس پر صحابہ ؓ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا ان درختوں کو کاٹنے میں کوئی گناہ ہے یا ان کے چھوڑ دینے پر کوئی مواخذہ کی بات ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ (تفسیر ابن کثیر ص 323 ج 4) یعنی تم نے جو بھی کھجوروں کے درخت کاٹ دیے یا انہیں ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، سو یہ سب اللہ کی اجازت سے ہے۔ جو کام اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اور دینی ضرورت سے ہو اس میں گناہگار ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ان کھجوروں کے کاٹنے میں جو دینی ضرورت تھی اس کو ﴿ وَ لِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ 005﴾ میں فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ ان درختوں کے جلانے میں بددین یہودیوں کا ذلیل کرنا بھی مقصود ہے اپنے باغوں کو جلتا ہوا دیکھ کر ان کے دل بھی جلیں گے اور ذلت بھی ہوگی اور اس کی وجہ سے قلعے چھوڑ کر ہار ماننے اور صلح کرنے پر راضی ہوں گے۔ چنانچہ یہودی یہ منظر دیکھ کر راضی ہوگئے کہ ہمیں مدینہ سے جانا منظور ہے پھر وہ مدینہ سے جلا وطن ہو کر خیبر چلے گئے جس کا قصہ اوپر گزرا ہے دنیاوی سامان کی حفاظت ہو، تخریب ہو اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہو تو اس میں ثواب ہی ثواب ہے گناہ کا احتمال ہی نہیں۔
Top