Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 157
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ١٘ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠ ۧ
اَلَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
يَتَّبِعُوْنَ
: پیروی کرتے ہیں
الرَّسُوْلَ
: رسول
النَّبِيَّ
: نبی
الْاُمِّيَّ
: امی
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
يَجِدُوْنَهٗ
: اسے پاتے ہیں
مَكْتُوْبًا
: لکھا ہوا
عِنْدَهُمْ
: اپنے پاس
فِي
: میں
التَّوْرٰىةِ
: توریت
وَالْاِنْجِيْلِ
: اور انجیل
يَاْمُرُهُمْ
: وہ حکم دیتا ہے
بِالْمَعْرُوْفِ
: بھلائی
وَيَنْهٰىهُمْ
: اور روکتا ہے انہیں
عَنِ
: سے
الْمُنْكَرِ
: برائی
وَيُحِلُّ
: اور حلال کرتا ہے
لَهُمُ
: ان کے لیے
الطَّيِّبٰتِ
: پاکیزہ چیزیں
وَيُحَرِّمُ
: اور حرام کرتا ہے
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْخَبٰٓئِثَ
: ناپاک چیزیں
وَيَضَعُ
: اور اتارتا ہے
عَنْهُمْ
: ان کے بوجھ
اِصْرَهُمْ
: ان کے بوجھ
وَالْاَغْلٰلَ
: اور طوق
الَّتِيْ
: جو
كَانَتْ
: تھے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
فَالَّذِيْنَ
: پس جو لوگ
اٰمَنُوْا بِهٖ
: ایمان لائے اس پر
وَعَزَّرُوْهُ
: اور اس کی رفاقت (حمایت کی)
وَنَصَرُوْهُ
: اور اس کی مدد کی
وَاتَّبَعُوا
: اور پیروی کی
النُّوْرَ
: نور
الَّذِيْٓ
: جو
اُنْزِلَ
: اتارا گیا
مَعَهٗٓ
: اس کے ساتھ
اُولٰٓئِكَ
: وہی لوگ
هُمُ
: وہ
الْمُفْلِحُوْنَ
: فلاح پانے والے
جو لوگ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جنہیں وہ اپنے پاس توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور خبیث چیزوں کو ان پر حرام قرار دیتے ہیں، اور وہ طوق ہٹاتے ہیں جو ان پر تھے۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے اور ان کی تکریم کی اور ان کی مدد کی اور اس نور کا اتباع کیا جو ان کے ساتھ اتارا گیا یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
بنی اُمّی ﷺ کا ذکر یہود و نصاریٰ توریت و انجیل میں پاتے ہیں یہ آیت سابقہ کے آخری جملہ (وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ) سے بدل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دائمی رحمت کے مستحق متقی اور اہل ایمان ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں جو اہل ایمان تھے اور اب جو اہل ایمان ہیں ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ رحمت دائمہ لکھ دے گا، اب اہل ایمان وہ لوگ ہیں جو نبی امی آخر الانبیاء ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں جو لوگ ان کی رسالت اور نبوت کے منکر ہیں وہ کیسا ہی ایمان کا دعویٰ کریں اللہ کے نزدیک ان کا ایمان معتبر نہیں ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی صفات بیان فرمائیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور نبی ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ آپ امی ہیں۔ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے رسول بھی ہیں اور اللہ کے نبی بھی ہیں۔ علماء نے فرمایا ہے کہ رسول وہ ہے جو اللہ کی طرف سے مستقل کتاب اور شریعت لے کر آیا ہو۔ اور نبی کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے ہر پیغمبر پر ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ مستقل کتاب یا شریعت نہ ہو۔ جس نبی کے ساتھ مستقل کتاب اور مستقل شریعت نہ تھی وہ اپنے سے سابق رسول کی کتاب اور شریعت کی تبلیغ کرتا تھا۔ یہ فرق اگر تسلیم کرلیا جائے تو بعض انبیاء کے تذکرہ میں جو رسول اور نبی ایک ساتھ فرمایا ہے اور مشہور ہے کہ وہ مستقل کتاب اور مستقل شریعت والے نہیں تھے (جیسا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تو اس میں رسول کا اطلاق لغوی معنی کے اعتبار سے ہوگا۔ الامی اور الرسول اور النبی سے آیت بالا میں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ مراد ہیں۔ آپ کو الامی سے ملقب فرمایا۔ عرب کے محاورہ میں امی اسے کہتے ہیں جس نے کسی مخلوق سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو اور آپ ﷺ نے بھی کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وقدرت سے آپ کو وہ علوم عطا فرمائے جو کسی کو نہیں دیئے۔ مخلوق میں آپ سے بڑھ کر کوئی بھی صاحب علم نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو علوم دیئے تھے ان ہی میں سے وہ سب خبریں ہیں جو آپ نے عالم کی ابتدائے آفرینش سے لے کر جنت میں سب سے آخر تک داخل ہونے والے شخص کے داخلہ تک بتادیں اور اہل دوزخ کے احوال بتا دئیے اور حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کے احوال اور واقعات بیان کیے جن میں سے کسی ایک کی بھی یہودی تکذیب نہ کرسکے ایسے امی پر کروڑوں اہل علم قربان۔ اس کو فرمایا ہے : یتیمے کہ نا کردہ قرآن درست کتنجانۂ چند ملت بشست اس سب تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ امی ہونا آپ کی ذات گرامی کے لیے عیب کی بات نہیں بلکہ سراپا مدح اور خیر و خوبی کی چیز ہے۔ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی مزید صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰیۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ) (بنی امی ﷺ کو وہ لوگ اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں) حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور خاص کر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا آپ کی بعثت کی بشارت دینا یہود و نصاریٰ میں معروف و مشہور تھا۔ سورة صف میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (یَابَنِیْ اِِسْرَآءِیلَ اِِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ ) (اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں میرے سامنے جو توریت ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہے) احمد، محمد دونوں رسول اللہ ﷺ کے اسماء گرامی ہیں۔ توریت شریف میں آپ ﷺ کی صفات : حضرت عطا بن یسار تابعی نے بیان فرمایا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ملاقات کی تو میں نے کہا کہ توریت میں جو رسول اللہ ﷺ کی صفت بیان کی گئی ہے وہ مجھے بتائیے، انہوں نے فرمایا کہ قرآن مجید میں جو آپ کی صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سے بعض صفات توریت شریف میں بھی ہیں۔ یعنی یہ کہ اے نبی ہم نے آپ کو گواہ بنا کر اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور امیین (یعنی عرب) کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا تو میرا بندہ ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا جو درشت خو اور سخت مزاج نہیں ہے اور بازاروں میں شور مچانے والا نہیں اور جو برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا۔ لیکن معاف کرتا ہے اور بخش دیتا ہے اور اللہ اسے نہیں اٹھائے گا جب تک کہ اس کے ذریعے کجی والی ملت کو سیدھا نہ کر دے۔ اس طرح سے کہ وہ لوگ لا الٰہ الا اللہ کہیں گے اور اس کے ذریعے ان کی اندھی آنکھوں کو کھول دے گا اور بہرے کانوں کو اور غلاف چڑھے ہوئے قلوب کو کھول دے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا یہ بیان صحیح بخاری سے مشکوٰۃ المصابیح ص 512 میں نقل کیا ہے کہ سنن دارمی ص 41 ج 1 میں بھی یہ مضمون ہے۔ اس میں یوں ہے کہ حضرت عطاء بن یسار نے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے مذکورہ بالا مضمون کی روایت کی۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی حق شناسی : حضرت عبداللہ بن سلام پہلے یہودی تھے اور ان کے علماء میں سے تھے۔ آنحضرت ﷺ کو دیکھتے ہی انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ چہرہ جھوٹا نہیں ہوسکتا اور آپ کی نبوت کی وہ علامات دیکھ کر جو انہیں پہلے سے معلوم تھیں آپ کو پہچان لیا اور اسلام قبول کرلیا۔ ان کے علاوہ عموماً یہودیوں نے آپ کو پہچان کر اور آپ کی نبوت کو حق جان کر ہٹ دھرمی پر کمر باندھ لی اور چند افراد کے علاوہ وہ لوگ مسلمان نہ ہوئے۔ ان کی جہالت و ضلالت نے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کا ساتھ نہ دیا۔ یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس نبی کے ذریعہ کجی والی ملت کو سیدھا فرمائے گا۔ اس سے ملت ابراہیمی مراد ہے جسے مشرکین عرب نے بگاڑ دیا تھا۔ یہودیوں نے آپ کی تشریف آوری سے کئی سو سال پہلے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ نبی آخر الزماں ﷺ تشریف لائیں گے اور ہم آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کے ساتھ مل کر مشرکین سے جنگ کریں گے۔ لیکن جب آپ تشریف لے آئے اور آپ کو پہچان بھی لیا کہ واقعی یہ وہی نبی ہیں ہم جن کے انتظار میں تھے تو اس کے باو جود منکر ہوگئے۔ اسی کو فرمایا (فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ) نصاریٰ بھی انجیل شریف میں آنحضرت ﷺ کی علامات پڑھتے چلے آ رہے ہیں انہوں نے آپ کو پہچان لیا۔ لیکن عام طور سے وہ بھی منکر ہوگئے۔ نصاریٰ نجران کے ساتھ جو مکالمہ ہوا اور آپ نے جو انہیں مباہلہ کی دعوت دی اور وہ مباہلہ سے منحرف ہوئے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ لوگ یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ واقعی آپ اللہ کے نبی ہیں ایمان نہ لائے۔ قیصر روم کا اقرار : ہر قل (قیصر روم) نے بھی یہ مان لیا کہ آپ ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ اس کا ذکر صحیح بخاری ( ص 4 ج 1) باب بدء الوحی میں موجود ہے۔ جانتے پہچانتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار یہود و نصاریٰ دونوں قوموں نے کیا۔ دور حاضر کے نصاریٰ کی ڈھٹائی دیکھو کہ موجودہ بائبل میں (جو پہلے سے بھی منحرف ہے) بھی انہوں نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں پیشین گوئی پا لی تو اس کی تحریف پر اتر آئے۔ توریت شریف کی پیشین گوئی اور اس میں بائبل شائع کرنے والوں کی تحریف کتاب استثناء باب 33 میں اس طرح پیشین گوئی موجود ہے۔ خداوند سینا 1 سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا، وہ کوہ فاران سے جلوہ گر 1 خدا وند تعالیٰ کے سینا سے آنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت شریف عطا فرمائی اور کوہ شعیر سے طلوع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل عطا فرمائی (شعیر شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے جہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) عبادت کیا کرتے تھے) اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ (فاران مکہ معظمہ کے پہاڑ کا نام ہے) ہوا اور دس ہزار قد سیوں کے ساتھ آیا اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشیں شریعت تھی۔ وہ اپنے لوگوں سے بڑی محبت رکھتا ہے اور اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیری باتوں کو مانیں گے۔ چونکہ اس پیشین گوئی میں لفظ فاران موجود ہے جو مکہ مکرمہ کے پہاڑ کا نام ہے اور دس ہزار قدسیوں کے ساتھ فاران پر جلوہ گرہونے کا تذکرہ ہے اور یہ دس ہزار وہ صحابہ ؓ تھے جو حضرت خاتم النّبیین ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ سے فتح مکہ کے موقع پر گئے تھے۔ لہٰذا تحریف کے مجرمین کو یہ دونوں باتیں بھاری پڑیں۔ اس لیے انہوں نے سابقہ تحریفات میں اضافہ کردیا (جب تحریف پر ہی دین اور دیانت کی بنیاد رکھ لی تو اب آگے تحریف کرنے میں خوف خدا لاحق نہ ہوا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے) اول تو فاران کا مصداق بدلنے کی کوشش کی اور یہ کہہ دیا کہ یہ بیت المقدس کا نام ہے۔ حالانکہ قدیم و جدید جغرافیہ نویسوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ بیت المقدس کا نام فاران ہے۔ خود توریت سامری کے عربی ترجمہ میں لفظ فاران کے سامنے بریکٹ میں لفظ الحجاز موجود ہے (یہ ترجمہ آر کوئی ٹسن نے 1851 ء میں شائع کیا تھا) دوسری تحریف ان مجرموں نے یہ کی کہ دس ہزار کی جگہ کسی ترجمہ میں ہزاروں لکھ دیا اور کسی میں لاکھوں لکھ دیا اور بعض ترجموں میں پورا جملہ ہی ختم کردیا۔ بائبل کا انگریزی ترجمہ جو کنگ جیمس ورجن نے 1958 ء میں شائع کیا تھا اس میں بھی دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آنے کا ذکر ہے۔ لیکن بعد میں تحریف کے دلیروں نے اس کو بدل کر رکھ دیا۔ تفصیلات کے لیے اظہار الحق عربی اور اس کے تراجم اور سیرت النبی ﷺ از سید سلیمان ندوی (رح) کا مطالعہ کیا جائے۔ یہود و نصاریٰ کا عجیب طرز فکر ہے وہ سمجھتے ہیں کہ تحریف کر کے جو لفظ اور معنی ہم اپنی طرف سے مقرر کردیں گے۔ وہی روز قیامت تک ہمارے لیے حجت بن جائے گا اور نبی آخر الزماں ﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کرنے کے لیے جو تدبیریں سوچی جائیں گی وہ بار گاہ خداوندی میں کام دے دیں گی اور دوزخ سے بچا دیں گی۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ مسئلہ مسلمانوں کو جواب دینے کا نہیں ہے آخرت میں نجات پانے کا ہے۔ یہود نے یقین کرلیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ توریت شریف میں آپ کا تذکرہ پڑھتے تھے۔ آپس میں اس کا ذکر بھی کرتے تھے۔ اور جب ان میں سے کوئی شخص مسلمانوں کے سامنے اقراری ہوجاتا تو اسے برا کہتے اور یوں کہتے تھے (اَتُحَدِّثُوْنَھُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ لِیُحَآجُّوْکُمْ بِہٖ عِنْدَ رَبِّکُمْ ) (کیا تم اس سے وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ نے تم پر کھول دیں تاکہ یہ لوگ تمہارے رب کے پاس تم پر حجت قائم کرلیں) ۔ ایک یہودی کا اپنے لڑکے کو اسلام قبول کرنے کا مشورہ دینا : صحیح بخاری ص 181 ج 1 میں ہے کہ حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا کہ ایک یہودی لڑکا رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوگیا تو آپ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سر کے پاس تشریف فرما ہوئے آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا (جو وہیں موجود تھا اس کا مقصد مشورہ لینا تھا) اس کے باپ نے کہا کہ ابو القاسم ﷺ کی بات مان لو، لہٰذا اس نے اسلام قبول کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ یوں فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے۔ الحمد للہ الذی انقذہ من النار (سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اسے آتش دوزخ سے بچا لیا) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 137) جو یہودی عہد نبوت میں مسلمان ہوگئے تھے اور صحابیت کے شرف سے مشرف ہوئے وہ تو توریت شریف سے آنحضرت ﷺ کی علامات اور صفات بیان کیا ہی کرتے تھے ان کے بعد علماء یہود میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے جن کو تابعیت کا شرف نصیب ہوا وہ بھی توریت سے آنحضرت سرور عالم ﷺ کی علامات اور صفات بیان کیا کرتے تھے۔ کعب احبار کا بیان : کعب احبار پہلے یہودی تھے۔ پھر حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم کے زمانہ میں اسلام قبول کیا وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم توریت میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں میرے برگزیدہ بندے ہیں نہ درشت خو ہیں نہ سخت مزاج ہیں وہ بازاروں میں شور مچانے والے نہیں ہیں۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے لیکن معاف کرتے ہیں اور بخش دیتے ہیں ان کی پیدائش مکہ میں ہوگی اور ان کی ہجرت کی جگہ طیبہ (مدینہ منورہ) ہے اور ان کا ملک شام میں ہوگا (ملک شام اولین وہ سر زمین ہوگی جہاں ان کے اصحاب کی حکومت ہوگی) اور ان کی امت کے لوگ خوب زیادہ حمد بیان کرنے والے ہوں گے یہ لوگ اللہ کی حمد بیان کریں گے خوشحالی میں بھی اور سختی میں بھی۔ وہ ہر منزل میں اللہ کی تعریف کریں گے اور ہر بلندی پر اللہ کی بڑائی بیان کریں گے۔ یہ لوگ آفتاب کی نگرانی کریں گے۔ جب نماز کا وقت ہوجائے گا نماز ادا کریں گے آدھی پنڈلیوں پر تہبند باندھیں گے وہ وضو میں اپنے اطراف یعنی ہاتھ پاؤں دھوئیں گے۔ ان کا موذن فضاء آسمانی میں اذان دے گا اور ان کی ایک صف قتال میں اور ایک صف نماز میں ہوگی۔ دونوں صفیں (اخلاص اور عزیمت میں) برابر ہوں گی۔ رات کو ان (کے ذکر) کی آواز ایسی ہوگی جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ صاحب مشکوٰۃ نے یہ روایت بحوالہ مصابیح السنہ نقل کی ہے، پھر لکھا ہے کہ دارمی نے بھی تھوڑی سی تغییر کے ساتھ روایت کی ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح میں یہ روایت ص 170 پر اور سنن دارمی میں (ص 15 ج 1) پر موجود ہے اس کے بعد صاحب مصابیح نے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے نقل کیا ہے کہ توریت میں محمد ﷺ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی صفت بیان کی ہے۔ (اس میں یہ بھی ہے) کہ عیسیٰ (علیہ السلام) آپ ﷺ کے ساتھ دفن ہوں گے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کا یہ بیان سنن ترمذی میں بھی ہے۔ بعض یہود کا اقرار کہ آپ ﷺ اللہ کے نبی ہیں لیکن قتل کے ڈر سے اسلام نہیں لاتے : آنحضرت ﷺ کی خدمت میں یہود حاضر ہوتے رہتے تھے اور بہت سی باتیں پوچھا کرتے تھے (جن کے بارے میں جانتے تھے کہ یہ نبی کے سوا کوئی نہیں بتاسکتا) اس میں اپنے سوالوں کا صحیح جواب پاتے اور بار باران کے یقین میں پختگی آتی جاتی تھی اور آپ ﷺ کا ہر جواب ان کو چیلنج کرتا تھا لیکن حق جانتے ہوئے مانتے نہیں تھے اور قبول نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دو یہودی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے آیات بینات کے بارے میں سوال کیا آپ نے جواب دے دیا تو انہوں نے آپ کے ہاتھ پاؤں چومے اور کہنے لگے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تمہیں میرا اتباع کرنے سے کیا چیز روکتی ہے ؟ کہنے لگے کہ ہمیں خوف ہے کہ اگر آپ کا اتباع کرلیں تو ہمیں یہودی قتل کردیں گے (مشکوٰۃ المصابیح ص 17) (یہ جان اور مال کا خوف انہیں اسلام قبول کرنے سے باز رکھتا تھا) جن یہودیوں نے آپ کو آزمایا اور آپ کی نشانیوں کو دیکھا اور دنیوی مفاد کو ٹھوکر ماری انہوں نے اسلام قبول کرلیا لیکن یہ معدو دے چند ہی تھے۔ ایک یہودی کا آپ ﷺ کو آزمانا پھر مسلمان ہونا : حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عالم کے چند دینار آنحضرت ﷺ پر قرض تھے وہ تقاضے کے لیے آیا آپ نے فرمایا کہ اے یہودی میرے پاس اس وقت انتظام نہیں ہے جو تیرا قرض ادا کروں، اس پر اس یہودی نے کہا کہ اے محمد میں آپ سے جدا نہ ہوں گا جب تک آپ میرا قرضہ ادا نہ کریں آپ ﷺ نے فرمایا تو میں بھی تیرے ساتھ بیٹھا رہوں گا۔ آپ ﷺ اس کے ساتھ بیٹھے رہے اور اسی دوران آپ ﷺ نے ظہر سے لے کر سب نمازیں ادا کرلیں۔ آپ کے صحابہ ؓ اسے دھمکی دیتے تھے اور ڈراتے تھے آپ نے اس کو محسوس فرما لیا اور استفہام انکاری کے طریقہ پر فرمایا کہ تم کیا کرتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ایک یہودی نے آپ ﷺ کو روک رکھا ہے (جو ہم سے نہیں دیکھا جاتا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھے اس بات سے منع فرمایا کہ کسی معاھد (ذمی یا مستامن) پر ظلم کروں۔ دوسرے دن جب دن چڑھ گیا تو اس یہودی نے کہا (اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ) اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں اپنا آدھا مال اللہ کی راہ میں دیتا ہوں اور میں نے جو کچھ کیا اسی لیے کیا کہ میں آپ ﷺ کو ان اوصاف کے موافق دیکھ لوں جو توریت میں بیان کیے گئے ہیں۔ توریت میں ہے کہ محمد بن عبداللہ ﷺ کی پیدائش مکہ میں ہوگی اور ان کی ہجرت کی جگہ طیبہ ہے اور ان کا ملک شام میں ہوگا۔ وہ درشت خو اور سخت مزاج نہیں ہوں گے اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہوں گے وہ فحش کلامی اختیار نہ کریں گے اور برے الفاظ سے بھی بچیں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ بیشک آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ میرا مال ہے آپ ﷺ اس میں جس طرح چاہیں حکم فرمائیں۔ (رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ کمافی المشکوٰۃ ص 520) حضرت سلمان فارسی ؓ کے اسلام قبول کرنے کا عجیب واقعہ : حضرت سلمان فارسی ؓ بھی جانچ پڑتال کے بعد مسلمان ہوئے یہ فارس کے رہنے والے تھے ان کا گھرانہ مشرک تھا ان کا باپ انہیں کھیت کیا ری دیکھنے کے لیے بھیجا کرتا تھا۔ مشغلہ کاشت کاری اور زمینداری تھا۔ اس کا نام بود خشان بن مور سلان تھا اور اپنے گاؤں کا چودھری تھا۔ حضرت سلمان ؓ اس کو سب سے زیادہ پیارے تھے حتیٰ کہ ان کو لڑکیوں کی طرح گھر میں رکھتا تھا اور قدم باہر نہ نکالنے دیتا تھا۔ حضرت سلمان ؓ کی پیدائش ہوئی تو ان کا نام مابہ رکھا اور ہوش سنبھالنے پر ان کو بھی آتش پرستی میں لگا دیا۔ یہاں تک کہ حضرت سلمان ؓ آتش کدہ کی خدمت میں اس انہماک سے لگے کہ ہر وقت روشن رکھتے تھے اور آتش کدہ کے پجاری اور مندر کے نگراں بن گئے تھے۔ حضرت سلمان ؓ اپنے مسلمان ہونے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے تھے کہ ایک روز میرا باپ مکان بنوانے میں مشغول ہوگیا اور فرصت نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کاشت کی خیر خبر لینے کے لیے بھیج دیا اور ساتھ ہی جلد آنے کی بھی وصیت کردی اور یہ بھی کہا کہ اگر تو نے واپس ہونے میں دیر کی تو تیری جدائی کی فکر میرے لیے ساری فکروں سے بڑھ جائے گی۔ والد کے کہنے پر میں گھر سے نکلا، راستہ میں عیسائیوں کے گرجا پر میرا گزر ہوا اور اس کو دیکھنے کے لیے اندر چلا گیا۔ وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ مجھے ان کی نماز پسند آگئی اور دل میں کہا کہ ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے میں نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارے دین کا مرکز کہاں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ملک شام میں ہے، میں شام تک وہیں رہا اور سورج چھپنے پر گھر واپس آیا تو باپ نے سوال کیا، اب تک کہاں تھا ؟ میں نے باپ کو اپنا پورا حال سنا دیا اور یہ بتادیا کہ مجھے نصاریٰ کا دین پسند ہے اور ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ باپ نے کہا بیٹا ! یہ تم نے غلط سمجھا، ان کا دین ٹھیک نہیں ہے۔ سچا دین وہی ہے جو تیرا اور تیرے باپ دادوں کا دین ہے۔ میں نے کہا خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ جب باپ نے میری گفتگو سنی تو اسے کھٹکا ہوا اور اس ڈر سے کہ کہیں میں ان سے نہ جا ملوں مجھے گھر میں بند کردیا اور پاؤں میں بیڑی ڈال دی۔ میں نے اس قید و بند کی حالت میں عیسائیوں کو خبر بھیج دی کہ جب شام سے سودا گر آئیں تو مجھے خبر کردینا میں ان کے ساتھ تمہارے دین کے مرکز میں پہنچ جاؤں گا، چناچہ کچھ دن کے بعد کچھ شامی تاجر آگئے انہوں نے مجھے خبر کردی، جب وہ تاجر واپس جانے لگے تو میں نے بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور ان کے ساتھ ہوگیا۔ جب میں ان کے ساتھ شام پہنچ گیا تو وہاں کے لوگوں سے کہا کہ بتاؤ تمہارے یہاں عیسائیوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ گرجا میں جاؤ وہاں کا جو پاپائے اعظم ہے وہی سب سے افضل ہے۔ میں گرجا میں جا پہنچا اور اس سے کہا کہ میں تمہارے دین کو پسند کرچکا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ تمہاری خدمت میں رہوں، اور تعلیم حاصل کروں۔ اس نے کہا بہتر ہے رہنے لگو۔ میں اس کے ساتھ رہنے لگا اور رہتے رہتے اس کے کچے چٹھے سے خوب واقف ہوگیا۔ یوں تو بڑا بزرگ بنا ہوا تھا مگر تھا بڑا خراب آدمی لوگوں کو صدقہ خیرات کا حکم دیتا اور جب اس کے کہنے سے لوگ صدقات و خیرات لے کر آتے تو ان سب کو اپنے پاس جمع کرلیتا اور مسکینوں کو کچھ بھی نہ دیتا، جب وہ مرگیا تو اس کے معتقد دفن کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ (اسے دفن نہ کرو) یہ تو بڑا خراب آدمی تھا تمہیں صدقہ کرنے کا حکم دیتا تھا اور جب تم اس کے پاس صدقات و خیرات کی رقم جمع کردیتے تھے تو نہ کسی فقیر کو دیتا تھا نہ کسی مسکین کو، بلکہ اپنے ہی خزانہ میں بھر دیتا تھا۔ لوگوں نے کہا تمہیں کیا پتہ ؟ میں نے کہا آؤ تمہیں اس کا خزانہ بتادوں ! یہ سن کر وہ میرے ساتھ ہو لیے، میں نے ان کو اس کا خزانہ دکھایا تو انہوں نے سونے اور چاندی سے بھرے ہوئے سات مٹکے رکھے ہوئے دیکھے۔ مٹکے دیکھ کر ان کو میری بات کا یقین آگیا تو بڑے برہم ہوئے اور ان کے دلوں میں اس پادری کی ذرا بھی وقعت نہ رہی اور کہنے لگے کہ خدا کی قسم ہم اسے ہرگز دفن نہ کریں گے۔ چناچہ ان لوگوں نے اس کی نعش کو سولی پر چڑھا کر پتھر مارتے مارتے چورا بنا دیا۔ اس کے بعد وہ لوگ اس کی جگہ دوسرے شخص کو لائے جسے انہوں نے گرجا کا پادری بنا دیا یہ دوسرا شخص اس پہلے شخص سے بہت افضل تھا اور دنیا سے بہت بےرغبت تھا مجھے اس سے محبت ہوگئی اور ایک عرصہ تک اس کے ساتھ گرجا میں رہا۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے کہا کہ اب آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں اور کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ میرے علم میں تو اب کوئی شخص اصل دین مسیحی پر نہیں ہے سوائے فلاں صاحب کے جو شہر موصل میں رہتے ہیں تم ان ہی کے پاس چلے جاؤ، چناچہ میں موصل پہنچا اور اس شخص کو تلاش کیا جس کا نام اور پتہ مجھے بتایا گیا تھا، جب اس سے ملاقات ہوگئی تو میں نے اس کو اپنا قصہ سنایا اور ساتھ رکھ لینے کی درخواست کی اس نے درخواست منظور کرلی اور میں اس کے ساتھ رہنے لگا۔ یہ بھی اچھا آدمی تھا۔ جب اس کی موت آپہنچی تو میں نے کہا کہ آپ کا میرے متعلق کیا ارشاد ہے ؟ بتائیے اب کس کے پاس جاؤں ؟ اس نے کہا کہ شہر نصیبین میں فلاں شخص کے پاس چلے جاؤ، میں نے نصیبین کا سفر کیا اور اس شخص کو ڈھونڈ لیا جس کے پاس بھیجا گیا تھا اس کو میں نے اپنا قصہ سنایا اور ساتھ رکھ لینے کی درخواست کی، اس نے مجھے ساتھ رکھ لیا۔ یہ بھی اچھا آدمی تھا مگر دنیا والی زندگی ہمیشہ کے لیے کسی کو بھی نہیں ملی۔ وہ شخص بھی مرنے لگا تو میں نے کہا اب میرے لیے کیا ارشاد ہے ؟ بتایئے اب کہاں جاؤں ؟ اس نے جواب دیا کہ اب تم عموریا میں فلاں شخص کے پاس جاؤ، چناچہ میں اس کے پاس پہنچا اور ساتھ رہنے کی درخواست کی، اس نے مجھے اپنے ساتھ رکھ لیا، یہ بھی اچھا شخص تھا۔ عموریا کے دوران قیام میں نے کمانے کا دھندہ کرلیا اور میرے پاس گائے بکریاں جمع ہوگئیں۔ جب اس عموریا والے پادری کو موت نے آگھیرا تو میں نے اس سے کہا کہ بتائیے میں اب کہاں جاؤں ؟ اس پر اس نے جواب دیا کہ اے بیٹا ! اللہ کی قسم اب تو میرے علم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ہمارے دین پر پوری طرح پابند ہو، اب تمہیں کس کے پاس بھیجوں ؟ بس اب تو تم آخر الزماں ﷺ کا انتظار کرو، ان کے تشریف لانے کا زمانہ قریب ہے۔ وہ دین ابراہیم (علیہ السلام) لے کر آئیں گے۔ عرب سے ظاہر ہوں گے وہ ایسے شہر کو ہجرت کریں گے جس کے دونوں طرف کنکریلی زمین ہوگی اور جہاں کھجوروں کے باغ ہوں گے۔ ان کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہدیہ کھائیں گے اور صدقہ نہ کھائیں گے اور یہ نشانی بھی کہ ان کے دونوں مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی، اب اگر تم سے ہو سکے تو عرب چلے جاؤ، یہ کہہ کر یہ پادری بھی دنیا سے سدھارا۔ میں عرب پہنچنے کی تدبیر سوچنے میں لگا رہا۔ حتیٰ کہ قبیلہ بنی کلب کے کچھ لوگ عموریا پہنچ گئے جو عرب سے تجارت کے لیے آئے تھے، ان سے میں نے کہا کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ مجھے اپنے ساتھ عرب لے چلو اور اس احسان کے بدلہ میں میری یہ بکریاں اور گائیں لے لو، اس بات کو انہوں نے منظور کیا اور مجھے ساتھ لے کر عرب چل دیئے۔ میں نے اپنی بکریاں اور گائیں ان کو دے دیں، وہ مجھے وادی القریٰ لے گئے (جو عرب ہی کا علاقہ ہے) مگر انہوں نے میرے ساتھ غداری کی اور مجھے اپنا غلام ظاہر کر کے فروخت کردیا، جس شخص کے ہاتھ مجھے بیچا تھا اس نے مجھے مدینہ کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کردیا جو قبیلہ بنی قریظہ میں سے تھا، وہ مجھے مدینہ لے گیا، مدینہ کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ بس یہی وہ شہر ہے جہاں میری مراد حاصل ہوگی۔ کیونکہ یہاں کھجوروں کے باغ بھی ہیں اور شہر کے دونوں طرف کنکریلی زمین بھی ہے۔ میں مدینہ میں اپنے آقا کے کام میں لگا رہا اور اسی اثناء میں سید عالم ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے آئے۔ ایک روز میں ایک درخت پر اپنے آقا کے باغ میں کام کر رہا تھا کہ اس کا چچا زاد بھائی آیا اور کہنے لگا کہ خدا بنی قبیلہ کو غارت کرے (بنی قیلہ سے انصار مراد ہیں) ابھی ابھی میں ان کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ ایک شخص کے اردگرد جمع ہیں جو مکہ سے آیا ہے اور اپنے کو نبی بتاتا ہے۔ یہ سنتے ہی مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور بیہوشی کا سا عالم ہوگیا۔ حتیٰ کہ میں درخت سے گرنے کے قریب ہوگیا۔ بڑی عجلت کے ساتھ میں درخت سے اتر کر اپنے آقا کے پاس جا کر کھڑا ہوا اور اس سے پوچھا کیا معاملہ ہے اس نے میرے منہ پر ایک طمانچہ مارا اور کہنے لگا چل تو اپنا کام کر تجھے ان باتوں سے کیا غرض ؟ چناچہ میں واپس ہوا اور اپنے کام میں لگ گیا۔ میرے دل میں بےچینی اور بےقراری تھی جس نے مجھے مجبور کردیا کہ صبح جو بات سنی تھی اس کی حقیقت معلوم کروں اور جس شخص کو میرے آقا کے چچا زاد بھائی نے مدعی نبوت بتایا ہے اس کو چل کر دیکھوں اور اس کی نبوت کو ان نشانیوں کے ذریعہ جانچوں جو عموریا والے پادری نے بتائی تھیں چناچہ جب شام ہوگئی اور مجھے کام سے فرصت ملی تو میں ایک خوان میں تازہ کھجوریں لے کر سیدعالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ قبا میں تشریف رکھتے تھے۔ میں نے عرض کیا یہ صدقہ ہے جو آپ کے اور آپ کے ساتھیوں کے لیے لایا ہوں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا میرے سامنے سے اٹھا لو کیونکہ ہم (یعنی انبیاء کرام (علیہ السلام) صدقہ نہیں کھاتے۔ یہ فرما کر آپ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا (جن کے لیے صدقہ حلال تھا) کہ تم کھالو۔ چناچہ صحابہ ؓ نے کھالیا اور آپ ہاتھ روکے ہوئے بیٹھے رہے۔ یہ ماجرا دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ ایک نشانی تو میں نے دیکھ لی، اس کے بعد میں چلا گیا اور پھر موقعہ پا کر کچھ کھجوریں جمع کر کے لایا اس وقت آپ قبا سے روانہ ہو کر مدینہ شہر میں تشریف لے جا چکے تھے، میں نے عرض کیا یہ ہدیہ ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، یہ سن کر آپ نے اس میں سے کھالیا، میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ دوسری نشانی ہے۔ اب میں نے خاتم النبوۃ کے دیکھنے کا ارادہ کیا تو تیسری بار پھر حاضر خدمت ہوا اس وقت آپ بقیع میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کے ساتھ صحابہ بھی تھے، میں نے آپ کو سلام کیا اور خاتم النبوۃ دیکھنے کے لیے گھوم کر آپ کے پیچھے پہنچ گیا۔ جب آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا ہوا دیکھا تو میرا مقصد سمجھ لیا اور خود بخود اپنی مبارک چادراٹھا کر مجھے خاتم النبوۃ دکھلا دی میں اس پر جھک گیا اور اسے چومنا شروع کردیا اور (چونکہ تینوں نشانیاں دیکھ کر آپ کی نبوت کا یقین ہوگیا اور اپنی مراد پا لی تو فرط خوشی میں) رونے لگا۔ آپ نے فرمایا سامنے آؤ، میں سامنے آیا اور اپنا پورا قصہ سنایا تو آپ کو ایسا عجیب معلوم ہوا کہ صحابہ ؓ کو بھی سنوایا۔ اس کے بعد میں غلامی کے مشغلوں میں پھنسا رہا۔ حتیٰ کہ جنگ بدر میں بھی شریک نہ ہوسکا۔ (اس دوران میں بارگاہ رسالت میں آتا جاتا رہا) ایک روز آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے آقا سے کتابت کرلو (یعنی اس سے اپنی جان کو خرید لو) چناچہ میں نے اس کی کوشش شروع کردی اور اپنے آقا سے یہ معاملہ کرلیا کہ جب میں کھجور کے 300 درخت لگا دوں اور ان کی پرورش کر دوں حتیٰ کہ ان میں کھجوریں آجائیں جو کھانے کے قابل ہوجائیں اور اس کے ساتھ چالیس اوقیہ نقد سونا بھی ادا کر دوں تو میں آزاد ہوجاؤں گا۔ (ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا تھا) معاملہ کر کے سیدعالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو۔ چناچہ صحابہ نے 300 پودے چندہ کر کے میرے لیے جمع کردیئے جب پورے جمع ہوگئے تو سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے درخت ہم لگا دیں گے تم ایک پودا بھی مت لگانا۔ لہٰذا میں نے 300 کیا ریاں بنا دیں اور آپ میرے ساتھ اس یہودی کے باغ میں تشریف لے گئے اور ان کیا ریوں میں وہ پودے لگا دیئے۔ ہم آپ کو پودے دیتے جاتے تھے اور آپ اپنے دست مبارک سے کیا ریوں میں رکھ رکھ کر مٹی بھرتے جاتے تھے۔ آپ نے جتنے بھی درخت لگائے تھے (جو کہ 299 تھے) ان میں سے ایک بھی خراب نہ ہوا اور مزید براں آپ کا یہ معجزہ دیکھنے میں آیا کہ اسی سال سب درخت پھل لے آئے، مگر ایک درخت نہ پھلا جسے حضرت عمر ؓ نے لگا دیا تھا۔ آپ نے اسے اکھاڑ کر دو بارہ اپنے دست مبارک سے لگا دیا۔ آپ کا دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ وہ درخت بھی اسی سال پھل لے آیا۔ (اس آیت کی بقیہ تفسیر انوارالبیان کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
Top